وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ
اور جو سچے دین کو لائے (١) اور جس نے اس کی تصدیق کی (٢) یہی لوگ پارسا ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے جھوٹے اور جھٹلانے والے کا جرم اور اس کی سزا کا ذکر کرنے کے بعد، صاحب صدق اور حق کی تصدیق کرنے والے اور اس کے ثواب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ﴾ ” اور جو شخص سچی بات لے کر آئے۔“ یعنی جو اپنے قول و عمل میں صدق کا حامل ہے۔ اس آیت کریمہ میں انبیاء اور ان کے متبعین داخل ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی خبروں اور احکام کی تصدیق کی اور خصائل صدق کو اپنایا۔ ﴿وَصَدَّقَ بِهِ﴾ یعنی صدق (حق بات) کی تصدیق کی۔ انسان کبھی کبھی صاحب صدق تو ہوتا ہے، مگر وہ صدق کی تصدیق نہیں کرتا اس کا سبب کبھی تو اس کا متکبر ہونا ہوتا ہے اور کبھی اس کا سبب وہ حقارت ہوتی ہے جو صدق لانے والے کے لئے اپنے اندر رکھتا ہے، اس لئے مدح میں صدق اور تصدیق دونوں لازم ہیں۔ پس اس کا صدق اس کے علم اور عدل پر دلالت کرتا ہے اور اس کی تصدیق اس کے تواضع اور عدم تکبر پر دلالت کرتی ہے۔ ﴿أُولَـٰئِكَ﴾ یعنی وہ لوگ جنہیں ان دونوں امور کو جمع کرنے کی توفیق سے نوازا گیا ﴿ هُمُ الْمُتَّقُونَ﴾ ” وہی متقی ہیں“ کیونکہ تقویٰ کے تمام خصائل و اوصاف صدق اور تصدیق حق کی طرف لوٹتے ہیں۔