قُلْ يَا عِبَادِ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا رَبَّكُمْ ۚ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ ۗ وَأَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةٌ ۗ إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ
کہہ دو کہ اے میرے ایمان والے بندو! اپنے رب سے ڈرتے رہو (١) جو اس دنیا میں نیکی کرتے ہیں ان کے لئے نیک بدلہ ہے (٢) اور اللہ تعالیٰ کی زمین بہت کشادہ ہے صبر کرنے والے ہی کو ان کا پورا پورا بیشمار اجر دیا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اشرف المخلوقات یعنی اہل ایمان کو دینی امور میں سے سب سے بہتر چیز تقویٰ کا حکم دیتے ہوئے کہہ دیجیے اور ان کے سامنے اس سبب کا بھی ذکر کیجیے جو تقویٰ کا موجب ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور اس کی نعمتوں کا اقرار، جو ان سے تقویٰ اختیار کرنے کا تقاضا کرتی ہیں اور ان میں سے ایک نعمت یہ ہے کہ اس نے ان کو ایمان کی دولت سے سرفراز فرمایا، جو تقویٰ کا موجب ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے آپ کسی سخی شخص سے کہیں ” اے سخی ! صدقہ کر“ اور کسی بہادر شخص سے کہیں ” اے بہادر ! لڑائی کر“ پھر اللہ تعالیٰ نے ثواب کا ذکر فرمایا جو دنیا میں ان کے اندر نشاط پیدا کرتا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَـٰذِهِ الدُّنْيَا﴾ ” جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی“ اپنے رب کی عبادت کے ذریعے سے تو ان کے لئے ﴿حَسَنَةٌ﴾ ” بھلائی“ لامحدود رزق، نفس مطمئنہ اور انشراح قلب ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً﴾ (النحل :16؍97) ” جو کوئی بھی نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور وہ مومن بھی ہو، ہم اسے نہایت پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے۔ “ ﴿وَأَرْضُ اللّٰـهِ وَاسِعَةٌ﴾ ” اور اللہ کی زمین وسیع ہے۔“ یعنی اگر تمہیں زمین کے کسی خطے میں اللہ تعالیٰ کی عبادت سے روک دیا جائے تو زمین کے کسی دوسرے خطے کی طرف ہجرت کر جاؤ جہاں تم اپنے رب کی عبادت کرسکو اور جہاں تمہارے لئے اقامت دین ممکن ہو۔ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَـٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ﴾ اور چونکہ یہ نص عام ہے، لہٰذا اس مقام پر بعض لوگوں کے لئے یہ کہنے کی مجال تھی کہ جو شخص بھی نیک کام کرے گا اس کے لئے دنیا میں بھلائی ہے، تو اس شخص کا کیا حال ہے جو کسی خطہ زمین میں ایمان لایا بایں ہمہ وہ مظلوم اور محکوم و مجبور ہے اور وہ اس بھلائی سے محروم ہے؟ اس لئے اس گمان کا جواب ان الفاظ میں فرمایا : ﴿وَأَرْضُ اللّٰـهِ وَاسِعَةٌ﴾ ” اور اللہ کی زمین بڑی فراخ ہے۔“ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ہے۔ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اس بشارت کو ان الفاظ میں منصوص فرمایا :” میری امت میں سے ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا، کسی کا ان سے علیحدہ ہونا اور مخالفت کرنا انہیں کوئی نقصان نہ دے سکے گا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ پہنچے گا اور یہ گروہ حق اسی نہج پر ہوگا۔“ [صحیح البخاری، التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ ﴿انما قولنا لشئی إذا أردنٰه﴾ ح :7460 و صحیح مسلم، الجھاد باب قولہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لانزال طائفۃ من أمتی۔۔۔ ح :1920] یہ آیت کریمہ اسی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اس کی زمین بہت کشادہ ہے اس لئے جب کبھی بھی کسی جگہ تمہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت سے روک دیا جائے تو تم کسی دوسری جگہ ہجرت کر جاؤ۔ ہر زمان و مکان میں یہ حکم عام ہے۔ تب لازم ٹھہرا کہ ہر ہجرت کرنے والے مومن کے لئے مسلمانوں کے اندر کوئی ٹھکانا ہو جہاں وہ پناہ لے سکے اور ایک جگہ ہو جہاں وہ اپنے دین کو قائم کرسکے۔ ﴿إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾ ” جو صبر کرنے والے ہیں، انہیں بے شمار ثواب ملے گا۔“ یہ آیت کریمہ صبر کی تمام انواع کے لئے عام ہے، مثلاً اللہ تعالیٰ کی تکلیف دہ قضا و قدر پر اس طرح صبر کرنا کہ اس میں ناراضی کا شائبہ نہ ہو، گناہ اور معاصی کے مقابلے میں صبر کرتے ہوئے ان کے ارتکاب سے بچنا، اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر صبر کرتے ہوئے اس پر قائم رہنا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے صبر شعار لوگوں کے لئے بے حساب اجر کا وعدہ کیا ہے۔ یعنی کسی حد، تعداد اور مقدار کے بغیر یہ صبر کی فضیلت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا موقع و محل ہے اور بلاشبہ یہ ہر معاملے میں متعین ہے۔