لَّوْ أَرَادَ اللَّهُ أَن يَتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصْطَفَىٰ مِمَّا يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ سُبْحَانَهُ ۖ هُوَ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ
اگر اللہ تعالیٰ کا ارادہ اولاد ہی کا ہوتا تو اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا چن لیتا۔ (لیکن) وہ تو پاک ہے، وہ (١) وہی اللہ تعالیٰ ہے یگانہ اور قوت والا۔
﴿لَّوْ أَرَادَ اللّٰـهُ أَن يَتَّخِذَ وَلَدًا﴾ ” اگر اللہ تعالیٰ کسی کو اپنا بیٹا بنانا چاہتا“ جیسا کہ بعض بے وقوف لوگوں کا خیال ہے﴿ لَّاصْطَفَىٰ مِمَّا يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ﴾ تو وہ اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا چن کر اپنے لیے مختص کرلیتا اور اسے اپنا بیٹا بنا لیتا اور اسے بیوی کی ضرورت نہ ہوتی ۔﴿سُبْحَانَهُ﴾مگر اللہ تبارک و تعالیٰ ان تمام باتوں سے پاک اور منزہ ہے جن کا یہ کفار اللہ تعالیٰ کے بارے میں گمان کرتے ہیں اور ملحدین اس کی طرف منسوب کرتے ہیں﴿ هُوَ اللّٰـهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ﴾یعنی اللہ تعالیٰ اپنی ذات، اپنے اسماء و صفات اور اپنے افعال میں ایک ہے لہٰذا اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شبیہ ہے نہ مثیل۔ اگر اللہ تعالیٰ کا کوئی بیٹا ہوتا تو وہ اپنی و حدت میں اس کا شبیہ ہونے کا مقتضی ہوتا کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا حصہ اور اس کا جز ہوتا۔ وہ تمام عالم علوی اور عالم سفلی پر غالب ہے۔ اگر اس کا کوئی بیٹا ہوتا تو وہ مقہور و مغلوب نہ ہوتا اور اپنے باپ کے خلاف جرأت اور گستاخی کرنے والا ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کی وحدت اور اس کا قہر لازم وملزوم ہیں۔ صرف ایک ہستی ہی غا لب اور قا ہر ہوسکتی ہے اس لیے چیزہر لحاظ سے شر اکت کی نفی کرتی ہے۔