إِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَهُ يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْرَاقِ
ہم نے پہاڑوں کو اس کے تابع کر رکھا تھا کہ اس کے ساتھ شام کو اور صبح کو تسبیح خوانی کریں۔
چونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو صبر کرنے کا حکم دیا ہے، اس لیے آپ کو تلقین فرمائی کہ آپ اللہ وحدہ کی عبادت اور اس کے عبادت گزار بندوں کے احوال کو یاد کر کے صبر پر مدد لیں، جیسا کہ ایک دوسری آیت میں فرمایا : ﴿فَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا﴾ (طٰهٰ:20؍130)” جو یہ کہتے ہیں اس پر صبر کیجیے اور طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے ، اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کیجیے۔“ سب سے بڑے عبادت گزار انبیاء میں سے اللہ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام ہیں وہ﴿ ذَا الْأَيْدِ ﴾ ” صاحب قوت تھے“ جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے اپنے قلب و بدن میں عظیم طاقت رکھتے تھے۔﴿ إِنَّهُ أَوَّابٌ﴾ یعنی وہ تمام امور میں انابت، محبت، تعبد، خوف، امید، کثرت گریہ زاری اور کثرت دعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف بہت زیادہ رجوع کرنے والے تھے۔ اگر عبادت میں کوئی خلل واقع ہوجاتا تو اس خلل کو دور کر کے سچی توبہ کے ساتھ اس کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ یہ ان کی اپنے رب کی طرف انابت اور اس کی عبادت ہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ پہاڑوں کو مسخر کردیا جو آپ کی معیت میں اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کرتے تھے ﴿بِالْعَشِيِّ وَالْإِشْرَاقِ﴾ صبح اور شام کو۔