سورة آل عمران - آیت 88

خَالِدِينَ فِيهَا لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنظَرُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جس میں یہ ہمیشہ پڑے رہیں گے نہ تو ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا نہ انہیں مہلت دی جائے گی۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

” اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا“ انہوں نے ظلم کیا اور حق کو پہچان کر اسے ترک کیا۔ اور ظلم اور سر کشی کرتے ہوئے اور خواہش نفس کی پیروی کرتے ہوئے باطل کو اختیار لیا،حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ وہ باطل ہے،تو انہیں ہدایت کی توفیق نہیں ملتی۔ ہدایت کی امید اس شخص کے لیے کی جاسکتی ہے جس نے حق کو نہ پہچانا ہو،لیکن اسے حق کی تلاش ہو۔ ایسے شخص کے لیے ممکن ہے کہ اللہ اس کے لیے ہدایت کے اسباب میسر فرما دے،اور گمراہی کے اسباب سے بچا لے۔ پھر ان ظالموں اور ضدی لوگوں کی دنیوی اور اخروی سزا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿أُولَـٰئِكَ جَزَاؤُهُمْ أَنَّ عَلَيْهِمْ لَعْنَةَ اللَّـهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ خَالِدِينَ فِيهَا لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنظَرُونَ﴾ ’’ان کی یہی سزا ہے کہ ان پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے، ان کے عذاب کو ہلکا کیا جائے گا، نہ انہیں مہلت دی جائے گی۔“ یعنی ان کا عذب نہ تو لحظہ بھر کے لیے ختم کیا جائے گا،نہ لحظہ بھر کے لیے ہلکا کیا جائے گا۔ نہ انہیں مہلت دی جائے گی، کیونکہ مہلت کا زمانہ ختم ہوگیا اور اللہ نے ان کا عذر ختم کردیا۔ یعنی اتنی عمر دے دی جس میں اگر کوئی نصیحت حاصل کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔ اگر ان میں کوئی بھلائی ہوتی تو ظاہر ہوجاتی۔ اب انہیں اگر دوبارہ دنیا میں آنے کا موقع دیا جائے تو دوبارہ وہی کام کریں گے، جس سے انہیں منع کیا گیا تھا۔