سورة يس - آیت 67

وَلَوْ نَشَاءُ لَمَسَخْنَاهُمْ عَلَىٰ مَكَانَتِهِمْ فَمَا اسْتَطَاعُوا مُضِيًّا وَلَا يَرْجِعُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور اگر ہم چاہتے تو ان کی جگہ ہی پر ان کی صورتیں مسخ کردیتے پھر وہ چل پھر سکتے اور نہ لوٹ سکتے (١)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ وَلَوْ نَشَاءُ لَمَسَخْنَاهُمْ عَلَىٰ مَكَانَتِهِمْ﴾ ” اور اگر ہم چاہیں تو ان کی جگہ پر ان کی صورتیں بدل دیں۔“ یعنی ہم ان کی حرکت سلب کرلیں ﴿فَمَا اسْتَطَاعُوا مُضِيًّا﴾ ” تو وہ چل پھر نہ سکیں“ یعنی آگ کی جانب ﴿وَلَا يَرْجِعُونَ ﴾ اور نہ آگ سے دور رہنے کے لئے پیچھے لوٹ سکیں۔ معنی یہ ہے کہ ان کفار کے لئے عذاب ثابت ہوگیا لہٰذا ان کو ضرور عذاب دیا جائے گا اور اس مقام پر جہنم کے سوا کچھ نہیں جو سامنے ہے اور اس پر بچھے ہوئے پل کو عبور کئے بغیر نجات کا کوئی راستہ نہیں اور اہل ایمان کے سوا اس پل کو کوئی عبور نہیں کرسکے گا۔ اہل ایمان اپنے ایمان کی روشنی میں پل کو عبور کریں گے۔ رہے یہ کفار تو اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے لئے نجات کا کوئی وعدہ نہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ ان کی بینائی کو سلب کرلے اور ان کی حرکت کو باقی رکھے تب اگر یہ راستے کی طرف بڑھیں تو اس تک پہنچ نہیں پائیں گے اور اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کی حرکت کو بھی سلب کرلے تب یہ آگے بڑھ سکیں گے نہ پیچھے لوٹ سکیں گے۔ مقصد یہ ہے کہ کفار پل صراط کو عبور کرسکیں گے نہ انہیں جہنم سے نجات حاصل ہوگی۔