قَالُوا إِنَّا تَطَيَّرْنَا بِكُمْ ۖ لَئِن لَّمْ تَنتَهُوا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَلَيَمَسَّنَّكُم مِّنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ
انہوں نے کہا کہ ہم تم کو منحوس سمجھتے ہیں (١) اگر تم باز نہ آئے تو ہم پتھروں سے تمہارا کام تمام کردیں گے اور تم کو ہماری طرف سے سخت تکلیف پہنچے گی۔
بستی والوں نے اپنے رسولوں سے کہا : ﴿إِنَّا تَطَيَّرْنَا بِكُمْ﴾’’بے شک ہم تم کو منحوس سمجھتے ہیں۔“ یعنی ہم سمجھتے ہیں کہ تمہارے آنے اور ہمارے پاس جلیل ترین نعمت لے کر آئے۔۔۔ جس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو نوازتا ہے، ان کو وہ بلند ترین اکرام عطا کرے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو عطا کرتا ہے اور وہ سب سے زیادہ اسی چیز کے ضرورت مند ہوں۔۔۔ یہ کہا جائے کہ وہ شے لے کر آیا ہے جس نے ان کے شر میں اضافہ کردیا اور وہ اس کو نحوست خیال کریں۔ یہ لوگ صرف اور صرف خذلان اور عدم توفیق کی وجہ سے اپنے ساتھی کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں جو دشمن کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا۔ پھر انہوں نے اپنے رسولوں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا : ﴿ لَئِن لَّمْ تَنتَهُوا لَنَرْجُمَنَّكُمْ﴾ ”اگر تم باز نہ آئے تو ہم تمہیں رجم کردیں گے۔“ یعنی ہم تمہیں پتھر مار مار کر ہلاک کردیں گے جو ہلاکت کی بدترین شکل ہے ﴿وَلَيَمَسَّنَّكُم مِّنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾ ” اور تمہیں ہماری طرف سے سخت تکلیف پہنچے گی۔“