وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلًا أَصْحَابَ الْقَرْيَةِ إِذْ جَاءَهَا الْمُرْسَلُونَ
اور آپ ان کے سامنے ایک مثال (یعنی ایک) بستی والوں کی مثال (اس وقت کا) بیان کیجئے جبکہ اس بستی میں (کئی) رسول آئے (١)
آپ کی رسالت کی تکذیب کرنے اور آپ کی دعوت کو ٹھکرا دینے والوں کے سامنے آپ یہ مثال بیان کردیجیے، جس سے یہ لوگ عبرت حاصل کریں۔ اگر یہ غور کریں تو یہ مثال ان کے لئے نصیحت ہوگی۔ یہ ان بستی والوں کی مثال ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے رسولوں کو جھٹلایا اور اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل کیا۔ اگر بستی کے تعین میں کوئی فائدہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کا تعین فرما دیتا، لہٰذا بستی کے نام کے تعین کے در پے ہونا تکلف اور بلاعلم کلام کے زمرے میں آتا ہے۔ جو کوئی اس قسم کے معاملے میں بلاعلم گفتگو کرتا ہے تو آپ دیکھیں گے کہ اس کی گفتگو بے تکی ہوتی ہے اور وہ اختلاف میں مبتلا ہے جس کو دوام نہیں۔ اس سے آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ علم صحیح کا طریق حقائق کے سامنے سر تسلیم خم کرنا اور ان امور میں تعرض کو ترک کرنا ہے جن کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس طریقے سے نفس پاک ہوتا ہے اور علم میں اضافہ ہوتا ہے، جبکہ جاہل سمجھتا ہے کہ عمل میں اضافہ ان اقوال کے بیان کرنے سے ہے جن کی کوئی دلیل نہیں اور ان اقوال کو بیان کرنے سے ذہن کو تشویش میں مبتلا کرنے اور اسے مشکوک امور کا عادی بنانے کے سوا کوئی فائدہ نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بستی کو مخاطبین کے لئے مثال قرار دیا۔ ﴿إِذْ جَاءَهَا الْمُرْسَلُونَ﴾ ”جب ان یک پاس رسول آپ ہے۔“ اس بستی میں اللہ تعالیٰ کے رسول مبعوث ہوئے جو انہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور دین کو صرف اسی کے لئے خلاص کرنے کا حکم دیتے تھے اور انہیں شرک اور معاصی سے منع کرتے تھے۔