سورة فاطر - آیت 18

وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۚ وَإِن تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَىٰ حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۗ إِنَّمَا تُنذِرُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُم بِالْغَيْبِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ ۚ وَمَن تَزَكَّىٰ فَإِنَّمَا يَتَزَكَّىٰ لِنَفْسِهِ ۚ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کوئی بھی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا (١) اگر کوئی گراں بار دوسرے کو اپنا بوجھ اٹھانے کے لئے بلائے گا تو وہ اس میں سے کچھ بھی نہ اٹھائے گا گو قرابت دار ہی ہو (٢) تو صرف انہی کو آگاہ کرسکتا ہے جو غائبانہ طور پر اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور نمازوں کی پابندی کرتے ہیں (٣) اور جو بھی پاک ہوجائے وہ اپنے نفع کے لئے پاک ہوگا لوٹنا اللہ ہی کی طرف ہے۔ (٤)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿وَإِن تَدْعُ مُثْقَلَةٌ﴾ اگر کوئی نفس جس نے اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھایا ہوا ہوگا اور وہ کسی سے بوجھ اٹھانے کے لئے التماس کرے گا ﴿ لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ﴾ ” تو کوئی شخص بھی خواہ اس کا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو اس کا بوجھ نہیں اٹھائے گا“ کیونکہ آخرت کے احوال دنیا کے احوال کی مانند نہیں ہیں جہاں دوست، دوست کی مدد کرتا ہے، بلکہ قیامت کے روز تو بندہ تمنا کرے گا کہ اس کا کسی کے ذمے حق ہو، خواہ اس کے والدین اور اقارب کے ذمے ہی کیوں نہ ہو۔ ﴿إِنَّمَا تُنذِرُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُم بِالْغَيْبِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ﴾ ” آپ تو صرف انہی لوگوں کو نصیحت کرسکتے ہیں جو بن دیکھتے اپنے رب سے ڈرتے اور نماز قائم کرتے ہیں۔“ یعنی یہی وہ لوگ ہیں جو انذار کو قبول کرتے ہیں اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو کھلے چھپے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو نماز کو اس کی تمام حدودود شر ائط، ارکان و واجبات اور پورے خشوع کے ساتھ قائم کرتے ہیں کیونکہ خشیت الٰہی بندے سے اس عمل کا تقاضا کرتی ہے جس کے ضیاع پر سزا کا خوف ہو اور ایسے عمل سے دور رہنے کا تقاضا کرتی ہے جس کے ارتکاب پر عذاب کا خوف ہو۔ نماز بھلائی کی طرف بلاتی ہے اور فواحش اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ ﴿وَمَن تَزَكَّىٰ فَإِنَّمَا يَتَزَكَّىٰ لِنَفْسِهِ﴾ یعنی جس کسی نے اپنے نفس کو عیوب مثلاً ریا، تکبر، جھوٹ، دھوکہ، مکر و فریب، نفاق اور دیگر اخلاق رذیلہ سے پاک کیا اور اپنے آپ کو اخلاق حسنہ سے آراستہ کیا مثلاً صدق، اخلاص، تواضع و انکسار، بندوں کی خیر خواہی اور دل کو بغض، حسد، کینے اور دیگر اخلاق رذیلہ سے پاک رکھا، تو اس کے تزکیہ نفس کا فائدہ اسی کو حاصل ہوگا۔ اس کے عمل میں سے کوئی چیز ضائع نہیں ہوگی۔ ﴿ وَإِلَى اللّٰـهِ الْمَصِيرُ ﴾ ” اور اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔“ پس وہ تمام خلائق کو ان کے اعمال کی جزا دے گا اور ان کے اعمال کا حساب لے گا اور کوئی چھوٹا یا بڑا عمل شمار کئے بغیر نہیں چھوڑے گا۔