سورة آل عمران - آیت 76

بَلَىٰ مَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ وَاتَّقَىٰ فَإِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

کیوں نہیں (مواخذہ ہوگا) البتہ جو شخص اپنا قرار پورا کرے اور پرہیزگاری کرے تو اللہ تعالیٰ بھی ایسے پرہیزگاروں سے محبت کرتا ہے (١

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿بَلَىٰ﴾ یعنی حقیقت وہ نہیں جو تم کہہ رہے ہو کہ تمہیں جاہلوں کے حق کا مواخذہ نہیں ہوگا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تمہیں اس جرم کا سخت گناہ ہوگا۔ ﴿ مَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ وَاتَّقَىٰ ﴾’’جو شخص اپنا قرار پورا کرے۔ اور پرہیز گاری کرے“۔ اس عہد و قرار میں وہ وعدہ بھی شامل ہے جو بندے اور رب کے درمیان ہے۔ اس میں اللہ کے وہ تمام حق شامل ہیں جو اس نے بندے پر واجب کئے ہیں اور وہ وعدہ بھی شامل ہے جو بندے کا دوسرے بندوں سے ہوتا ہے۔ اس مقام پر عہدو پیمان سے مراد ان گناہوں سے بچنا ہے جو حقوق اللہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ان سے بھی جو حقوق العباد سے متعلق ہیں۔ جو شخص ان سب گناہوں سے بچتا ہے وہ متقی ہے جن سے اللہ تعالیٰ محبت رکھتا ہے خواہ وہ (اُمِّیِین) (عرب ان پڑھ لوگوں) میں سے ہو یا دوسروں میں سے ہو اور جو شخص یہ کہتا ہے کہ ہمیں جاہلوں کے حق کا کوئی گناہ نہیں، اس نے اللہ کا وعدہ پورا نہیں کیا اور اللہ سے نہیں ڈرا۔ لہٰذا اسے اللہ کی محبت حاصل نہیں ہوئی، بلکہ اللہ اس سے بغض رکھتا ہے۔ اگر ان پڑھ ایفائے عہد، تقویٰ اور مالی خیانت سے پرہیز سے متصف ہوں گے تو وہی اللہ کے پیارے ہوں گے، وہی متقی کہلائیں گے جن کے لئے جنت تیار کی گئی ہے۔ وہ اللہ کی مخلوق میں افضل مقام پر فائز ہوں گے لیکن جو لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں جاہلوں کی حق تلفی کرنے سے گناہ نہیں ہوتا وہ اللہ کے اس قول میں داخل ہوتے ہیں :