سورة سبأ - آیت 29

وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هَٰذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

پوچھتے ہیں کہ وہ وعدہ ہے کب؟ سچے ہو تو بتا دو۔ (١)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

فرمایا : ﴿وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هَـٰذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ﴾ ” اور کہتے ہیں، اگر تم سچے ہو تو یہ وعدہ کب وقوع پذیر ہوگا؟“ یہ مطالبہ ان کی طرف سے محض ظلم تھا کیونکہ رسول کی صداقت اور اس وعدے کے پورا ہونے کے وقت سے آگاہ کرنے میں کون سا تلازم ہے؟ کیا یہ حق کو ٹھکرانے اور حماقت و سفاہت کے سوا کچھ اور ہے؟ کیا دنیا کے کسی معاملے میں ڈرانے والا کوئی شخص اگر ایسے لوگوں کے پاس آئے جو اس کی صداقت اور خیر خواہی کو جانتے ہیں اور ان کا ایک دشمن بھی ہے جو ان پر حملہ کرنے کے لئے تیار اور اس کے لئے موقع کا متلاشی ہے، تو یہ شخص ان لوگوں کے پاس آکر کہتا ہے :” میں تمہارے دشمن کو اس حال میں چھوڑ کر آیا ہوں کہ وہ روانہ ہوچکا ہے وہ تمہیں نیست و نابود کرنا چاہتا ہے۔“ اگر ان میں سے بعض لوگ کہیں :” اگر تو سچا ہے تو ہمیں بتا کہ کس وقت وہ ہمارے پاس پہنچے گا اور اس وقت وہ کہاں ہے؟“ کیا یہ سوال کرنے والا شخص عقل مند شمار کیا جائے گا یا اس پر سفاہت اور پاگل پن کا حکم لگایا جائے گا؟ خبر دینے والا سچا یا جھوٹا ہوسکتا ہے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دشمن کا ارادہ کسی اور طرف کا ہو، یہ بھی ممکن ہے کہ دشمن اپنا ارادہ ترک کر دے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کسی مضبوط قلعے میں ہوں جہاں وہ اس دشمن سے اپنی مدافعت کرسکتے ہوں، تب وہ اس شخص کو کیوں کر جھٹلا سکتے ہیں جو مخلوق میں سب سے زیادہ سچ بولنے والا ہے، جو اپنی خبر میں ہر غلطی سے پاک ہے، جو اس آنے والے یقینی عذاب کے بارے میں اپنی خواہش نفس سے کچھ نہیں کہتا، اس عذاب سے بچنے کے لئے کوئی پناہ گاہ ہے نہ اس سے بچانے والا کوئی مددگار ہے۔ کیا اس شخص کی خبر کو محض اس لئے رد کرنا کہ اس نے عذاب کے وقوع کا وقت نہیں بتایا، سب سے بڑی حماقت نہیں !