سورة سبأ - آیت 27

قُلْ أَرُونِيَ الَّذِينَ أَلْحَقْتُم بِهِ شُرَكَاءَ ۖ كَلَّا ۚ بَلْ هُوَ اللَّهُ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کہہ دیجئے! اچھا مجھے بھی تو انھیں دکھا دو جنہیں تم اللہ کا شریک ٹھہرا کر اس کے ساتھ ملا رہے ہو، ایسا ہرگز نہیں (١) بلکہ وہی اللہ ہے غالب با حکمت۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿قُلْ﴾ اے رسول ! آپ اور وہ، جو آپ کا قائم مقام ہو، ان سے کہہ دیں : ﴿أَرُونِيَ الَّذِينَ أَلْحَقْتُم بِهِ شُرَكَاءَ﴾ ” مجھے وہ لوگ تو دکھاؤ جن کو تم نے اس کا شریک بنا کر اس کے ساتھ ملا رکھا ہے۔“ یعنی مجھے دکھاؤ وہ کہاں ہیں؟ ان کی معرفت کا کیا طریقہ ہے؟ وہ زمین میں ہیں یا آسمان میں؟ کیونکہ غیب اور شہادت کو جاننے والی ہستی نے ہمیں آگاہ فرمایا ہے کہ اس کائنات میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ ﴿وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللّٰـهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَـٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللّٰـهِ ۚ قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللّٰـهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ﴾ ( یونس:10؍18)” اور یہ لوگ اللہ کے سوا ان کی عبادت کر رہے ہیں جو ان کو نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ نفع اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں، آپ کہہ دیجیے تم اللہ کو جتاتے ہو جو اس کو معلوم نہیں آسمانوں میں اور نہ زمین میں وہ ایسی باتوں سے پاک اور بالاتر ہے جو یہ شرک کرتے ہیں۔ “﴿وَمَا يَتَّبِعُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللّٰـهِ شُرَكَاءَ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ﴾(یونس:10؍66)” اور جو یہ لوگ اللہ کے سوا خود ساختہ شریکوں کو پکارتے ہیں، یہ محض وہم و گمان کی پیروی کرتے ہیں اور محض اندازے لگاتے ہیں۔ “ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی خاص مخلوق، یعنی انبیاء و مرسلین کے علم میں بھی کوئی اللہ تعالیٰ کا شریک نہیں ہے، تو اے مشرکو ! مجھے دکھاؤ جن کو تم نے اپنے زعم باطل کے مطابق اللہ تعالیٰ کے ﴿ شُرَكَاءَ﴾ ” شریک“ ٹھہرا دیا ہے۔ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب ان سے ممکن نہیں، اس لئے فرمایا : ﴿ كَلَّا﴾ ” ہرگز نہیں“ یعنی اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک، کوئی ہمسر اور کوئی مدمقابل نہیں۔ ﴿بَلْ هُوَ اللّٰـهُ﴾ ” بلکہ وہ اللہ ہے“ جس کے سوا کوئی الوہیت اور عبادت کا مستحق نہیں۔ ﴿الْعَزِيزُ ﴾ جو ہر چیز پر غالب ہے، اس کے سوا ہر چیز مقہور اور اس کے دست تدبیر کے تحت مسخر ہے۔ ﴿ الْحَكِيمُ﴾ ” حکمت والا ہے“ اس نے جو چیز بھی تخلیق کی نہایت مہارت سے تخلیق کی۔ اس نے جو شریعت بنائی، بہترین شریعت بنائی۔ اگر اس کی شریعت میں صرف یہی حکمت پنہاں ہوتی کہ اس نے اپنی توحید اور اخلاص فی الدین کا حکم دیا، اسی کو پسند فرمایا اور اسی کو نجات کی راہ قرار دیا ہے، اس نے شرک اور اللہ تعالیٰ کے ہمسر بنانے سے روکا اور اس کو ہلاکت اور بدبختی کا راستہ قرار دیا ہے۔۔۔ تو اس کے کمال حکمت کے اثبات کے لئے یہی دلیل کافی ہے۔۔۔ تب اس شریعت کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں جس کے تمام اوامرو نواہی حکمت پر مشتمل ہیں؟