يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَىٰ فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا ۚ وَكَانَ عِندَ اللَّهِ وَجِيهًا
اے ایمان والو! ان لوگوں جیسے نہ بن جاؤ جنہوں نے موسیٰ کو تکلیف دی پس جو بات انہوں نے کہی تھی اللہ نے انھیں اس سے بری فرما دیا (١) اور اللہ کے نزدیک با عزت تھے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو متنبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو معزز، نہایت نرم دل اور رحیم ہیں، اذیت نہ پہنچائیں۔ ان پر جو آپ کے لئے اکرام و احترام واجب ہے وہ اس کے برعکس رویے سے پیش نہ آئیں اور ان لوگوں کی مشابہت اختیار نہ کرلیں جنہوں نے کلیم الرحمٰن حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام کو اذیت پہنچائی مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو ان کی تکلیف وہ باتوں سے برأت دی اور ان کی برأت کو ان کے سامنے ظاہر کردیا، حالانکہ موسیٰ علیہ السلام تہمت اور اذیت کے لائق نہ تھے۔ وہ تو اللہ تعالیٰ کے ہاں نہایت با آبرو، اس کے مقرب بندے، اس کے خاص رسول اور اس کے مخلص بندوں میں شمار ہوتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جن فضائل سے سرفراز فرمایا وہ فضائل بھی ان کو اذیت رسانی سے نہ روک سکے اور ان کو ناپسندیدہ حرکات سے باز نہ رکھ سکے اس لئے اے مومنو ! تم ان کی مشابہت اختیار کرنے سے بچو۔ یہ اذیت جس کی طرف قرآن مجید میں اشارہ کیا گیا ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بنی اسرائیل کی بد زبانی ہے۔ جب انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا کہ یہ نہایت با حیا ہیں اور اپنے ستر کا بہت خیال رکھتے ہیں تو انہوں نے مشہور کردیا کہ وہ صرف اس لئے ستر چھپاتے ہیں کہ ان کے خصیے (فوطے) متورم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی بنائی ہوئی باتوں سے آپ کی برأت کرنا چاہی، چنانچہ ایک روز حضرت موسیٰ علیہ السلام نے غسل کیا اور اپنے کپڑے ایک پتھر پر رکھ دیے۔ پتھر کپڑے لے کر فرار ہونے لگا حضرت موسیٰ علیہ السلام (اسی عریاں حالت میں) پتھر کے پیچھے بھاگے اور بنی اسرائیل کی مجالس کے پاس سے گزرے تو انہوں نے دیکھ لیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہترین تخلیق سے سرفراز فرمایا ہے۔ آپ سے ان کا بہتان زائل ہوگیا۔ [صحیح البخاری، الغسل، باب من اغتسل عریاناً وجدہ فی خلوۃ، ح :278]