وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ ۖ فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا
یاد کرو) جبکہ تو اس شخص سے کہہ رہا تھا کہ جس پر اللہ نے بھی انعام کیا اور تو نے بھی کہ تو اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھ اور اللہ سے ڈر تو نے اپنے دل میں وہ جو چھپائے ہوئے تھا جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور تو لوگوں سے خوف کھاتا تھا، حالانکہ اللہ تعالیٰ اس کا زیادہ حق دار تھا کہ تو اسے ڈرے (١) پس جب کہ زید نے اس عورت سے اپنی غرض پوری کرلی (٢) ہم نے اسے تیرے نکاح میں دے دیا (٣) تاکہ مسلمانوں پر اپنے لے پالک بیویوں کے بارے میں کسی طرح تنگی نہ رہے جب کہ وہ اپنی غرض ان سے پوری کرلیں (٤) اللہ کا (یہ) حکم تو ہو کر ہی رہنے والا ہے (٥)
ان آیات کریمہ کا سبب نزول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لئے ایک عام قانون مشروع کرنے کا ارادہ فرمایا کہ منہ بولے بیٹے، تمام وجوہ سے، حقیقی بیٹوں کے حکم میں داخل نہیں ہیں اور ان کی بیویوں کے ساتھ، متنبیٰ بنانے والوں کے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ معاملہ ان امور عادیہ میں شمار ہوتا تھا جو کسی بہت بڑے حادثے کے بغیر ختم نہیں ہوسکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ یہ قانون رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول و فعل کے ذریعے سے وجود میں آئے اور جب اللہ تبارک و تعالیٰ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے لئے کوئی سبب مقرر کردیتا ہے۔ زید بن حارثہ کو ” زید بن محمد“ کہہ کر پکارا جاتا تھا جنہیں نبی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا متنبیٰ بنایا تھا۔ ان کو ” زید بن محمد“ کہا جاتا رہا حتیٰ کہ یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ﴿ ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ ﴾ (الاحزاب :33؍5) ” ان کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو۔“ تب ان کو زید بن حارثہ کہا جانے لگا۔ ان کی بیوی زینب بنت جحش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھوپھی زاد بہن تھیں۔ آپ کو بذریعہ وحی مطلع کردیا گیا تھا کہ زید نے طلاق دے دینی ہے اور اس کے بعد اس کا نکاح آپ سے کردیا جائے گا۔ اس وحی الٰہی کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ یقین رکھتے تھے کہ زید کے طلاق دینے کے بعد آپ اس سے نکاح کرلیں گے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مقدر کردیا کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا اور حضرت زید بن حارث رضی اللہ عنہ کے درمیان کچھ ایسے واقعات ہوئے جن کی بنا پر زید رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر حضرت زینب رضی اللہ عنہ کو طلاق دینے کی اجازت طلب کی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللّٰـهُ عَلَيْهِ ﴾ ” جب آپ اس شخص سے، جس پر اللہ نے احسان کیا، کہہ رہے تھے“ یعنی اللہ تعالیٰ نے اسے اسلام سے سرفراز فرمایا ﴿ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ ﴾ ” اور آپ نے بھی اس پر انعام کیا تھا۔“ یعنی آپ نے اس کو آزادی عطا کر کے اور ارشاد و تعلیم کے ذریعے سے اس پر احسان فرمایا تھا۔ جب زید نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اپنی بیوی کو طلاق دینے کے بارے میں مشورہ طلب کرنے کی غرض سے حاضر ہوئے تو آپ نے اس کی خیر خواہی کرتے اور اس کو اس کی مصلحت سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ ﴾ ” اپنی بیوی کو اپنے پاس رہنے دو۔“ یعنی اسے طلاق نہ دے اس کی طرف سے تمہیں جو کوئی تکلیف پہنچی ہے اس پر صبر کر ﴿ وَاتَّقِ اللّٰـهَ ﴾ اپنے عام معاملات میں اور خاص طور پر اپنی بیوی کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈر، کیونکہ تقویٰ صبر پر آمادہ کرتا ہے اور اس کا حکم دیتا ہے۔ ﴿ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللّٰـهُ مُبْدِيهِ ﴾ ” اور آپ اپنے دل میں وہ بات پوشید ہر کھتے تھے جس کو اللہ ظاہر کرنے والا تھا۔“ جو چیز آپ نے اپنے دل میں چھپائی ہوئی تھی وہ یہی تھی جس کی اطلاع آپ کو بذریعہ وحی دی گئی تھی کہ اگر زید رضی اللہ عنہ زینب رضی اللہ عنہا کو طلاق دے دے تو آپ اس سے نکاح کرلیں گے۔ ﴿ وَتَخْشَى النَّاسَ ﴾ ” اور آپ لوگوں سے ڈرتے تھے“ اس چیز کے عدم ظہور کے معاملے میں جو آپ کے دل میں ہے۔ ﴿ وَاللّٰـهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ ﴾ ” حالانکہ اللہ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ آپ اس سے ڈریں“ کیونکہ اس کا خوف ہر بھلائی کے عطا ہونے کا سبب اور ہر برائی کے روکنے کا ذریعہ ہے۔ ﴿ فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا ﴾ ” پس جب زید رضی اللہ عنہ نے اس سے اپنی ضرورت پوری کرلی۔“ یعنی جب زید رضی اللہ عنہ نے خوش دلی سے اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا میں بے رغبتی کے باعث طلاق دے دی ﴿ زَوَّجْنَٰکَهَا ﴾ ” تو ہم نے اس کا نکاح آپ سے کردیا“ اور ہم نے یہ سب کچھ ایک عظیم فائدے کے لئے کیا ﴿ لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ ﴾ ” تاکہ مومنوں کے لئے ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے بارے میں کوئی حرج نہ رہے۔“ یہ دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی مطلقہ سے نکاح کرلیا ہے جو اس سے قبل آپ کا منہ بولا بیٹا تھا۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ﴿ لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ ﴾ تمام احوال میں عام ہے جب کہ بعض احوال میں ایسا کرنا جائز نہیں ہوتا اور وہ حالت حاجت پوری ہونے سے پہلے کی حالت ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فرمان کے ساتھ اسے مقید کردیا کہ ﴿ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا وَكَانَ أَمْرُ اللّٰـهِ مَفْعُولًا ﴾ ” جب وہ ان سے اپنی ضرورت پوری کرچکیں، اور اللہ کا حکم پورا ہو کر رہنے والا تھا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کا حکم پورا ہو کر رہتا ہے اور اس کے لئے کوئی رکاوٹ اور کوئی مانع نہیں بن سکتا۔ ان آیات کریمہ سے، جو اس واقعے پر مشتمل ہیں، متعدد نکات مستنبط ہوتے ہیں : (1)ان آیات کریمہ میں دو لحاظ سے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی مدح کی گئی ہے۔ (ا) اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آپ کا نام ذکر کیا ہے جبکہ آپ کے علاوہ صحابہ میں سے کسی صحابی کا نام قرآن مجید میں مذکور نہیں۔ (ب) اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اس نے زید رضی اللہ عنہ کو نعمت سے نوازا یعنی اسلام اور ایمان کی نعمت سے سرفراز فرمایا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے گواہی ہے کہ زید رضی اللہ عنہ ظاہری اور باطنی طور پر مسلمان اور مومن تھے ورنہ اس نعمت کو ان کے ساتھ مختص کرنے کی کوئی وجہ نہیں، سوائے اس کے کہ اس سے مراد نعمت خاص ہے۔ (2)جس شخص کو آزاد کیا گیا ہو وہ آزاد کرانے والے کا ممنون نعمت ہے۔ (3) ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے نکاح جائز ہے جیسا کہ اس کی تصریح کی گئی ہے۔ (4) ان آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ عملی تعلیم، قولی تعلیم سے زیادہ بلیغ اور مؤثر ہے خاص طور پر جب عملی تعلیم قولی تعلیم سے مقرون ہو تو پھر ” سونے پر سہاگہ‘‘ ہے۔ (5) بندے کے دل میں اپنی بیوی اور لونڈی کے علاوہ کسی اور عورت کی رغبت کا پیدا ہوجانا قابل گرفت نہیں ہے، مگر اس شرط کے ساتھ کہ یہ رغبت یا محبت فعل حرام سے مقرون نہ ہو۔ بندہ اس محبت پر گناہگار نہیں خواہ اس کی یہ آرزو ہی کیوں نہ ہو کہ اگر اس کا شوہر اسے طلاق دے دے تو وہ اس سے نکاح کرے گا، مگر کسی بھی سبب سے ان کے درمیان جدائی ڈالنے کے لئے کوشش نہ کرے۔ (6) ان آیات کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی رسالت کو واضح طریقے سے پہنچا دیا۔ آپ کی طرف جو کچھ بھی وحی کیا گیا وہ سب پہنچا دیا اور کچھ بھی باقی نہیں رکھا حتیٰ کہ وہ حکم بھی پہنچایا جس میں آپ پر عتاب کیا گیا تھا اور یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور وہی بات کہتے ہیں جو آپ کی طرف وحی کی جاتی ہے اور آپ اپنی بڑائی نہیں چاہتے۔ (7) آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امین ہے، جب بھی کسی معاملے میں اس سے مشورہ طلب کیا جائے تو وہ اپنے علم کے مطابق بہترین مشورہ دے اور مشورہ طلب کرنے والے کے مفاد سے مشورہ طلب کیا جائے تو وہ اپنے علم کے مطابق بہترین مشورہ دے اور مشورہ طلب کرنے والے کے مفاد کو اپنی خواہش نفس اور اپنی غرض پر مقدم رکھے، خواہ اس میں اس کا اپنا خط نفس ہی کیوں نہ ہو۔ (8) جو کوئی اپنی بیوی کو طلاق دینے کے لئے مشورہ طلب کرتا ہے، اس کے لئے بہترین رائے یہ ہے کہ جہاں تک اصلاح احوال ممکن ہو، اس کو اپنی بیوی کو طلاق نہ دینے کا مشورہ دیا جائے کیونکہ بیوی کو اپنے پاس رکھنا، طلاق دینے سے بہتر ہے۔ (9) یہ بات متعین ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کے خوف کو لوگوں کے خوف پر مقدم رکھے اور اللہ تعالیٰ کا خوف ہی زیادہ لائق اور اولیٰ ہے۔ (10) ان آیات کریمہ سے ام المومنین حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا کی فضیلت کا اظہار ہوتا ہے کیونکہ ان کے نکاح کی اللہ تعالیٰ نے سرپرستی فرمائی جس میں کوئی خطبہ تھا نہ گواہ۔ بنا بریں زینب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دیگر ازواج مطہرات پر فخر کا اظہار کیا کرتی تھیں، فرمایا کرتی تھیں :” تمہارا نکاح تمہارے گھر والوں نے کیا ہے میرا نکاح سات آسمانوں پر اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔“ (صحیح البخاری، التوحيد، باب ﴿و کان عرشہ علی الماء﴾ ح :8420) (11) ان آیات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگر عورت شادی شدہ ہو اور اس کا شوہر موجود ہو تو اس کے ساتھ نکاح جائز ہے نہ اس کے اسباب میں کوشش کرنا جائز ہے جب تک اس کا شوہر اس سے اپنی حاجت پوری نہ کرے اور اس کی حاجت اس وقت تک پوری نہیں ہوتی جب تک کہ طلاق کی عدت پوری نہ ہوجائے کیونکہ عورت عدت کے ختم ہونے تک اپنے خاوند کی حفاظت میں ہوتی ہے خواہ کسی بھی پہلو سے ہو۔