وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا
اور (دیکھو) کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعد کسی امر کا کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا (١) یاد رکھو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی بھی نافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں پڑے گا۔
جو شخص ایمان سے متصف ہے اس کے لئے اس کے سوا اور کچھ مناسب نہیں کہ وہ فوراً اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کی طرف سبقت کرے، ان کی ناراضی سے بچے، ان کے حکم کی تعمیل کرے اور جس کام سے وہ روک دیں، اس سے اجتناب کرے۔ کسی مومن مرد اور مومن عورت کے لائق نہیں کہ ﴿ إِذَا قَضَى اللّٰـهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا ﴾ ” جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے میں کوئی حتمی فیصلہ کردیں“ اور اس کی تعمیل کو لازم قرار دے دیں تو ﴿ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ﴾ ” ان کے لئے اس فیصلے پر عمل کا اختیار باقی رہے“ کہ آیا وہ اس کام کو کریں یا نہ کریں؟ بلکہ مومن مرد اور مومن عورتیں جانتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی جانوں سے بڑھ کر عزیز ہیں، اس لئے وہ اپنے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان، اپنی کسی خواہش نفس کو حجاب نہ بنائیں۔ ﴿ وَمَن يَعْصِ اللّٰـهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا ﴾ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہ ہوگیا۔“ یعنی وہ واضح طور پر گمراہ ہوگیا کیونکہ اس نے صراط مستقیم کو ترک کر کے، جو اللہ تعالیٰ کے اکرام و تکریم کے گھر تک جاتا ہے، دوسرا راستہ اختیار کرلیا جو درد ناک عذاب تک پہنچتا ہے۔ سب سے پہلے اس سبب کا ذکر کیا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے عدم معارضہ کا موجب ہے اور وہ ہے ایمان، پھر اس سے مانع کا ذکر فرمایا اور وہ ہے گمراہی سے ڈرانا، جو عذاب اور سزا پر دلالت کرتا ہے۔