سورة آل عمران - آیت 65

يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّوْرَاةُ وَالْإِنجِيلُ إِلَّا مِن بَعْدِهِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اے اہل کتاب! تم ابراہیم کی بابت جھگڑتے ہو حالانکہ تورات اور انجیل تو ان کے بعد نازل کی گئیں، کیا تم پھر بھی نہیں سمجھتے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یہودیوں کا دعویٰ تھا کہ ابراہیم علیہ السلام یہودی تھے اور عیسائی کہتے تھے کہ آپ عیسائی تھے۔ اس بارے میں وہ جھگڑتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی بحث و جدال کا تین طریقوں سے جواب دیا ہے۔ اولاً: ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں ان کا جھگڑا، ایسے معاملے میں ہے جس کے بارے میں انہیں علم حاصل نہیں، لہٰذا انہیں اس موضوع پر بحث ہی نہیں کرنی چاہیے جن سے ان کا تعلق ہی نہیں۔ تو رات و انجیل کے مسائل کے بارے میں تو انہوں نے بحث و مجادلہ کیا، خواہ ان کا موقف صحیح تھا یا غلط۔ لیکن ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں بحث کرنے کا انہیں کوئی حق حاصل نہیں۔ ثانیاً: یہود تو رات کے احكام و مسائل کی طرف منسوب ہیں اور نصاریٰ کا تعلق انجیل کے احکام و مسائل سے ہے اور یہ دونوں کتابیں ابراہیم علیہ السلام کے دنیا سے چلے جانے کے بہت بعد نازل ہوئی ہیں۔ پھر وہ لوگ ابراہیم علیہ السلام کو اپنے ساتھ کیوں ملاتے ہیں حالانکہ وہ ان سے بہت پہلے تھے۔ کیا یہ معقول بات ہے؟ اس لئے فرمایا : ﴿ أَفَلَا تَعْقِلُونَ﴾” کیا تم پھر بھی نہیں سمجھتے“ یعنی اگر تم خود اپنی بات کو سمجھ سکتے ہوتے تو یہ بات نہ کہتے۔ ثالثاً: اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل علیہ السلام کا یہود، نصاریٰ اور مشرکین سے کوئی بھی تعلق ہونے سے انکار فرمایا ہے، انہیں خالص مسلمان قرار دیا ہے۔ آپ سے تعلق ان کا ہے جو آپ پر ایمان لا کر آپ کی امت بنے، ان کے بعد ابراہیم علیہ السلام سے تعلق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا، اور آپ پر ایمان رکھنے والوں کا ہے۔ یہی اصل میں آپ کے متبع ہیں، لہٰذا دوسروں کی نسبت ان ہی کا تعلق ابراہیم علیہ السلام سے ثابت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی ان کا مددگار اور موید ہے۔ اس کے برعکس جن لوگوں نے ابراہیم علیہ السلام کے دین کو پس پشت ڈال دیا، جیسے یہود، نصاریٰ اور مشرکین، ان کا ابراہیم علیہ السلام سے کوئی تعلق نہیں۔ نہ ابراہیم علیہ السلام کا ان سے کوئی تعلق ہے۔ انہیں اس خالی نسبت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ان آیات میں یہ مسئلہ بیان ہوا ہے کہ بغیرعلم کے بحث کرنا منع ہے۔ جو ایسی بات کرتا ہے، اسے اس کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ ان میں علم تاریخ حاصل کرنے کی ترغیب بھی ہے۔ اس کے ذریعے سے بہت سے غلط اقوال اور غلط عقائد کی تردید کی جاسکتی ہے، جو تاریخ کے معلوم واقعات کے مخالف ہوں۔