يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ إِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا
اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم زندگانی دنیا اور زینت دنیا چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا دوں اور تمہیں اچھائی کے ساتھ رخصت کر دوں۔
رسول اللہ کی ازواج مطہرات نے جمع ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ ایسے مطالبات کیے جن کو ہر وقت پورا نہیں کیا جاسکتا تھا مگر وہ متفق ہو کر اپنا مطالبہ کرتی ہی رہیں۔ یہ چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بہت شاق گزری۔ حالت یہاں تک پہنچی کہ آپ کو ان کے ساتھ ایک ماہ کے لیے ایلا (زوجہ کے قریب نہ جانے کا عہد) کرنا پڑا۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معاملے کو آسان اور آپ کی زواج مطہرات کے درجات کو بلند کرنا چاہتا تھا اور آپ کی ازواج مطہرات سے ہر اس بات کو دور کرنا چاہتا تھا جو ان کے اجر کو کم کرے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم دیا کہ وہ اپنی ازواج کو (اپنے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا) اختیار دے دیں۔ فرمایا : ﴿ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ إِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا ﴾ ” اے نبی ! اپنی بیویوں سے کہہ دیجیے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہتی ہو۔“ یعنی اگر دنیا کے سوا تمہارا کوئی مطلب نہیں اور تم دنیا کی زندگی پر راضی اور اس کے فقدان پر ناراض ہو اگر تمہارا یہی حال ہے تو مجھے تمہاری کوئی ضرورت نہیں۔ ﴿ فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ ﴾ ” تو آؤ میں تمہیں کچھ مال دوں۔“ یعنی میرے پاس جو بھی سروسامان ہے، وہ تمہیں عطا کردوں ﴿ وَأُسَرِّحْكُنَّ ﴾ اور تمہیں الگ کردوں ﴿ سَرَاحًا جَمِيلًا ﴾ یعنی کسی ناراضی اور سب و شتم کے بغیر، بلکہ خوش دلی اور انشراح صدر کے ساتھ، اس سے قبل کہ حالات نامناسب سطح تک پہنچ جائیں تمہیں آزاد کردوں۔