قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ
آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب! ایسی انصاف والی بات کی طرف آؤ جو ہم میں تم میں برابر ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں (١) نہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو ہی رب بنائیں (٢) پس اگر وہ منہ پھیر لیں تو تم کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلمان ہیں (٣)
اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ آپ اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ سے کہہ دیجئے کہ ﴿ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ﴾” ایسی انصاف والی بات کی طرف آؤ جو ہم میں تم میں برابر ہے“ یعنی ہم اس کی بنیاد پر متحد ہوجائیں، اس سے مراد وہ بات ہے جس پر تمام انبیاء و رسل کا اتفاق ہے، جس کی مخالفت سوائے گمراہ اور ضدی لوگوں کے کسی نے نہیں کی اور وہ بات فریقین میں سے کسی ایک کے ساتھ مخصوص نہیں، بلکہ دونوں میں مشترک ہے۔ یہ اختلاف کے موقع پر انصاف والی بات ہے۔ پھر اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّـهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا﴾ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور نہ اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک بنائیں“۔ اکیلے اللہ کی عبادت کریں۔ محبت، خوف اور امید کا تعلق صرف اسی سے رکھیں۔ اس کے ساتھ نہ کسی نبی کو شریک کریں نہ ولی کو، نہ صنم کو نہ وثن کو، نہ حیوان کو نہ جمادات کو﴿ وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ﴾’’اور نہ اللہ کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو رب بنائیں“ بلکہ صرف اللہ کی اور اس کے رسولوں کی اطاعت کریں۔ ہم کسی مخلوق کی بات مان کر خالق کی نافرمانی نہ کریں۔ کیونکہ یہ کام مخلوق کو خالق کا مقام دینے کے مترادف ہے۔ جب اہل کتاب یا دوسرے غیر مسلموں کو اس بات کی دعوت دی جائے اور وہ تسلیم کرلیں تو وہ دوسرے مسلمانوں کے برابرہوجائیں گے۔ ان کے حقوق و فرائض دوسرے مسلمانوں کے برابر ہوں گے۔ اگر وہ تسلیم نہ کریں تو ثابت ہوجائے گا کہ وہ اپنی خواہش نفس کے پیروکار اور معاند ہیں تو انہیں گواہ بنا کر کہہ دو کہ ہم تو مسلمان ہیں۔ اس کا فائدہ غالباً یہ ہے کہ جب تم انہیں یہ بات کہو گے اور حقیقی اہل علم تم ہی ہو، تو یہ بات ان پر مزید حجت قائم کر دے گی۔ علاوہ ازیں جب تم ایمان لا کر اسلام میں داخل ہوچکے ہو تو اللہ کو دوسروں کے غیر مسلم رہنے کی پرواہ نہیں، کیونکہ وہ پاک نہیں ہیں، بلکہ ان کی فطرت ناپاک ہے۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿قُلْ آمِنُوا بِهِ أَوْ لَا تُؤْمِنُوا ۚ إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا ﴾(بنی اسرائیل:17؍107) ”کہہ دیجئے ! تم ایمان لاؤ یا نہ لاؤ، جنہیں اس سے پہلے علم دیا گیا ہے ان کے پاس تو جب بھی ان کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر پڑتے ہیں۔“ علاوہ ازیں ایمان والے عقیدے پر شبہات وارد ہونے سے مومن پر یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے ایمان کی تجدید کرے اور اپنے اسلام کا اعلان کرے اور اس طرح اپنے یقین کی خبر دے اور اپنے رب کی نعمت پر اس کا شکر ادا کرے۔