أَوَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَبْلِهِم مِّنَ الْقُرُونِ يَمْشُونَ فِي مَسَاكِنِهِمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ ۖ أَفَلَا يَسْمَعُونَ
کیا اس بات نے بھی انھیں کوئی ہدایت نہیں دی کہ ہم نے پہلے بہت سی امتوں کو ہلاک کردیا جن کے مکانوں میں یہ چل پھر رہے ہیں (١) اس میں تو بڑی بڑی نشانیاں ہیں، کیا پھر بھی یہ نہیں سنتے؟
کیا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کرنے والے ان کفار پر واضح نہیں ہوا اور انہیں راہ صواب نہیں ملی کہ ﴿ كَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَبْلِهِم مِّنَ الْقُرُونِ﴾ ” ہم نے ان سے پہلے بہت سی امتوں کو ہلاک کردیا“ جو ان کی گمراہی کے مسلک پر گامزن تھے۔ ﴿ يَمْشُونَ فِي مَسَاكِنِهِمْ ﴾ ” ان کے مکانوں میں یہ چل پھر رہے ہیں“ اور وہ عیاں طور پر ان کے مساکن کا مشاہدہ کرتے ہیں، مثلاً قوم ہود، قوم صالح اور قوم لوط کے مساکن۔ ﴿ إِنَّ فِي ذٰلِكَ لَآيَاتٍ﴾ ” بے شک اس میں ضرور نشانیاں ہیں“ جن کے ذریعے سے وہ رسولوں کی صداقت اور شرک اور شر پر مبنی اپنے موقف کے بطلان پر استدلال کرسکتے ہیں، نیز جو ان جیسے کرتوت کرے گا اس کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوگا جو ان لوگوں کے ساتھ ہوا تھا، نیز وہ اس پر بھی استدلال کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بندوں کو ان کے اعمال کی جزا دے گا اور حشر کے لیے ان کو دوبارہ زندہ کرے گا۔ ﴿ أَفَلَا يَسْمَعُونَ ﴾ ” کیا وہ سنتے نہیں ہیں۔“ کیا وہ آیات الٰہی کو سن کر یاد نہیں رکھتے کہ ان سے فائدہ اٹھائیں؟ اگر ان کی سماعت صحیح ہوتی اور وہ عقل سلیم سے بہرہ مند ہوتے تو اس حالت پر کبھی بھی قائم نہ رہتے جس میں ہلاکت یقینی ہے۔