وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَلَا تَكُن فِي مِرْيَةٍ مِّن لِّقَائِهِ ۖ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ
بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب دی، پس آپ کو ہرگز اس کی ملاقات میں شک نہ کرنا (١) چاہیے اور ہم نے اسے (٢) بنی اسرائیل کی ہدایت کا ذریعہ بنایا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے جب اپنی ان آیات کا ذکر فرمایا جن کے ذریعے سے اس نے اپنے بندوں کو نصیحت کی، اور وہ قرآن مجید ہے جو اس نے نبی مصطفی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمایا، تو اس بات کا تذکرہ فرمایا کہ یہ قرآن کوئی انوکھی کتاب ہے نہ اس کتاب کو لانے والا رسول کوئی انوکھا رسول ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کتاب دی تھی جو کہ تورات ہے وہ قرآن کی تصدیق کرتی ہے اور قرآن نے اس کی تصدیق کی ہے، دونوں کا حق ایک دوسرے کے مطابق اور موافق ہے اور دونوں کی دلیل ثابت ہے ﴿ فَلَا تَكُن فِي مِرْيَةٍ مِّن لِّقَائِهِ﴾ ” پس آپ اس کے ملنے سے شک میں نہ پڑنا“ کیونکہ حق کے دلائل و براہین ثابت ہوچکے ہیں اس لیے شک و شب ہے کا کوئی مقام نہیں۔ ﴿ وَجَعَلْنَاهُ﴾ ” اور ہم نے اس کو بنایا“ یعنی اس کتاب کو جو ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو عطا کی ﴿ هُدًى لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ﴾ ” بنی اسرائیل کے لیے ہدایت۔“ یعنی وہ اپنے دین کے اصولوں و فروع میں اس کتاب سے رہنمائی حاصل کرتے تھے۔ اس کی شریعت اور قوانین صرف اسرائیلیوں کے لیے اور اس زمانے کے مطابق تھے۔۔۔ رہا یہ قرآن کریم تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسے تمام انسانوں کے لیے ہدایت بنایا ہے کیونکہ یہ اپنے کامل اور عالی شان ہونے کی بنا پر قیامت تک کے لیے تمام مخلوق اور ان کے دینی اور دنیاوی امور میں رہنمائی عطا کرتا ہے۔ ﴿ وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ لَدَيْنَا لَعَلِيٌّ حَكِيمٌ﴾ )الزخرف : 43؍4) ” اور بے شک یہ لوح محفوظ میں درج ہے جو ہمارے ہاں بہت عالی مرتبہ، حکمت والی کتاب ہے۔ “