سورة لقمان - آیت 20

أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً ۗ وَمِنَ النَّاسِ مَن يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَابٍ مُّنِيرٍ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمان کی ہر چیز کو ہمارے کام میں لگا رکھا ہے (١) اور تمہیں اپنی ظاہری و باطنی نعمتیں بھرپور دے رکھی ہیں (٢) بعض لوگ اللہ کے بارے میں بغیر علم کے بغیر ہدایت کے اور بغیر روشن کتاب کے جھگڑا کرتے ہیں (٣)۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی نعمتیں یاد دلاتا ہے اور انہیں ان نعمتوں پر شکر کرنے، ان کا مشاہدہ کرنے اور ان سے عدم غفلت کا حکم دیتا ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿أَلَمْ تَرَوْا ﴾ کیا تم نے مشاہدہ نہیں کیا؟ کیا تم نے اپنی ظاہری اور دل کی آنکھ سے دیکھنے کی کوشش نہیں کی؟ ﴿أَنَّ اللّٰـهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ﴾ ” بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے )سورج، چاند اور ستاروں میں سے( جو کچھ آسمان میں ہے اسے تمہارے لیے مسخر کردیا ہے۔“ یہ سب بندوں کے فائدے کے لیے مسخر ہیں۔ ﴿وَمَا فِي الْأَرْضِ﴾ ” اور جو کچھ زمین میں ہے۔“ یعنی تمام حیوانات، درخت، کھیتیاں، دریا اور معدنیات وغیرہ کو تمہارے لیے مسخر کردیا ہے جیسا کہ فرمایا : ﴿هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا﴾ )البقرۃ: 2؍29( ” وہی تو ہے جس نے زمین کی سب چیزیں تمہارے لیے پیدا کیں۔“ ﴿وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ﴾ اور جس نے تمہیں دین و دنیا کی نعمتوں، بہت سی منفعتوں کے حصول اور مضرتوں سے دور ہونے جیسی وافر ظاہری اور باطنی نعمتوں سے ڈھانپ لیا ہے ان میں سے بعض کو ہم جانتے ہیں اور بعض کو نہیں جانتے۔ تمہارا وظیفہ یہ ہونا چاہیے کہ تم منعم کی محبت کے ساتھ اور اس کے سامنے سرافگندہ ہو کر ان نعمتوں پر شکر کا اظہار کرو، ان نعمتوں کو اس کی اطاعت میں صرف کرو اور ان نعمتوں سے اس کی نافرمانی پر مدد نہ لو۔ ﴿وَ﴾ ” اور“ ان نعمتوں کے پے درپے عطا ہونے کے باوجود ﴿مِنَ النَّاسِ مَن﴾ ” لوگوں میں ایسا آدمی بھی ہے جو“ ان نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا بلکہ ان نعمتوں پر ناشکری کرتا ہے۔ اس ہستی کا انکار کرتا ہے جس نے اسے ان نعمتوں سے نوازا اور اس نے اس کے اس حق کو تسلیم نہ کیا جس کے لیے اس نے کتابیں نازل کیں اور اپنے رسول بھیجے۔ ﴿ يُجَادِلُ فِي اللّٰـهِ ﴾ اور اس نے باطل دلائل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے معاملے میں جھگڑنا شروع کیا تاکہ حق کو نیچا دکھائے اور اس دعوت کو جسے رسول لے کر آیا ہے، یعنی اللہ وحدہ کی عبادت کی دعوت کو ٹھکرا دے اور یہ جھگڑنے والا شخص ﴿ بِغَيْرِ عِلْمٍ ﴾ کسی علم اور کسی بصیرت کے بغیر جھگڑتا ہے۔ پس اس کا جھگڑا کسی علمی بنیاد پر مبنی نہیں ہے کہ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے اور اس کے ساتھ بات چیت میں نرمی کی جائے ﴿ وَلَا هُدًى ﴾ اور نہ کسی ہدایت پر مبنی ہے، جس کی بنا پر ہدایت یافتہ لوگوں کی پیروی کی جاتی ہے ﴿ وَلَا كِتَابٍ مُّنِيرٍ ﴾ اور نہ اس کا مجادلہ کسی روشن اور حق کو واضح کرنے والی کسی کتاب پر مبنی ہے۔ پس اس کا مجادلہ کسی معقول یا منقول دلیل پر مبنی ہے نہ ہدایت یافتہ لوگوں کی اقتدا پر مبنی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں اس کی بحث و جدال تو صرف اپنے ان آباء و اجداد کی تقلید پر مبنی ہے جو کسی طرح بھی راہ راست پر نہ تھے، بلکہ خود گمراہ اور گمراہ کنندہ تھے۔