وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَىٰ وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ
ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی (١) ہے، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر (٢) اسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے (٣) کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر، (تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔
جب اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کو قائم کرنے یعنی شرک کو ترک کرنے کا حکم دیا جس کا لازمہ قیام توحید ہے، تو پھر والدین کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا، چنانچہ فرمایا: ﴿وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ﴾ ” اور ہم نے انسان کو تاکید کی ہے۔“ یعنی ہم نے اس سے عہد لیا اور اس عہد کو وصیت بنا دیا کہ ہم عنقریب اس سے پوچھیں گے کہ آیا اس نے اس وصیت کو پورا کیا؟ اور کیا اس نے اس وصیت کی حفاظت کی ہے یا نہیں؟ ہم نے اسے ﴿ بِوَالِدَيْهِ﴾ ” اس کے والدین کے بارے میں“ وصیت کی اور اس سے کہا : ﴿اشْكُرْ لِي﴾ میری عبودیت کے قیام اور میرے حقوق کی ادائیگی کے ذریعے سے میرا شکر ادا کر اور میری نعمتوں کو میری نافرمانی میں استعمال نہ کر۔ ﴿وَلِوَالِدَيْكَ﴾ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک، یعنی نرم و لطیف قول، فعل جمیل، ان کے سامنے تواضع و انکسار، ان کے اکرام و اجلال، ان کی ذمہ داریوں کو اٹھانے، ان کے ساتھ قول و فعل اور ہر لحاظ سے برے سلوک سے اجتناب کرنے کے ذریعے سے ان کا شکر ادا کر۔ ہم نے اسے یہ وصیت کرنے کے بعد آگاہ کیا ﴿إِلَيَّ الْمَصِيرُ ﴾ کہ اے انسان ! عنقریب تجھے اس ہستی کی طرف لوٹنا ہے جس نے تجھے وصیت کرکے ان حقوق کی ادائیگی کا مکلف بنایا ہے۔ وہ ہستی تجھ سے پوچھے گی : ” کیا تو نے اس وصیت کو پورا کیا کہ وہ تجھے اس پر ثواب عطا کرے یا تو نے اس وصیت کو ضائع کردیا تاکہ تجھے بدترین سزا دے؟“ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کے بعد اس سبب کا ذکر فرمایا جو ماں کے ساتھ حسن سلوک کا موجب ہے، لہٰذا فرمایا : ﴿حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَىٰ وَهْنٍ﴾ ” اس کی ماں نے تکلیف پر تکلیف برداشت کرکے اسے (پیٹ میں) اٹھائے رکھا۔“ یعنی نہایت مشقت کے ساتھ اس کو پیٹ میں اٹھائے رکھا۔ وہ استقرار نطفہ ہی سے مشقتوں کا سامنا کرتی رہتی ہے، مثلاً بعض چیزوں کے کھانے کو جی چاہنا، بیماری، کمزوری، حمل کا بوجھ، حالت میں تغیر اور پھر وضع حمل کے وقت سخت تکلیف کا سامنا کرنا ﴿وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ﴾ ” اور دو سال میں اس کا دودھ چھڑانا۔“ یعنی وہ اپنی ماں کی پرورش، کفالت اور رضاعت کا محتاج ہوتا ہے۔ کیا اس ہستی کے ساتھ حسن سلوک نہ کیا جائے جو شدید محبت کے ساتھ اپنے بچے کی خاطر یہ سختیاں برداشت کرتی ہے اور اس کے بیٹے کو اس کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید اور وصیت نہ کی جائے؟