وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِندَ اللَّهِ ۖ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ
تم جو سود پر دیتے ہو کہ لوگوں کے مال میں بڑھتا رہے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں نہیں بڑھتا (١) اور جو کچھ صدقہ زکوٰۃ تم اللہ تعالیٰ کا منہ دیکھنے (اور خوشنودی کے لئے) دو تو ایسے لوگ ہی ہیں اپنا دوچند کرنے والے ہیں (٢)۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے انفاق فی سبیل اللہ وغیرہ، ان اعمال کا ذکر فرمایا جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہے پھر ان اعمال کا ذکر کیا جو دنیاوی مقاصد کے تحت کیے جاتے ہیں، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ﴾ ” اور جو تم سود دیتے ہو کہ لوگوں کے مالوں میں افزائش ہو۔“ یعنی اپنی ضروریات سے زائد مال، جو تم عطا کرتے ہو اور اس سے تمہارا مقصد یہ ہوتا ہے کہ تمہارے مال میں اضافہ ہوجائے۔ تم انہی لوگوں کو مال عطا کرتے ہو جن سے تمہیں عطا کردہ مال سے زیادہ معاوضے کی امید ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس عمل کے اجر میں اضافہ نہیں ہوتا کیونکہ اس میں اخلاص کی شرط معدوم ہے۔ اس قسم کے اعمال کے زمرے میں وہ اعمال آتے ہیں جو لوگوں کے ہاں عزت و جاہ اور ریا کے لیے کیے جائیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان اعمال کے اجر میں اضافہ نہیں ہوتا۔ ﴿ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ ﴾ ”اور جو کچھ تم زکوٰۃ دیتے ہو۔“ وہ مال تمہیں اخلاق رذیلہ سے پاک کرتا ہے اور زکوٰۃ کے ذریعے سے تمہارے مال کو بخل سے پاک کرتا ہے اور حاجت مند کی حاجت پوری کرنے کی بنا پر اس میں اضافہ کرتا ہے۔ ﴿ تُرِيدُونَ ﴾ ” تم چاہتے ہو“ زکوٰۃ کی ادائیگی سے ﴿ وَجْهَ اللّٰـهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ﴾” اللہ کا چہرہ، تو وہی لوگ اپنے مال کو دگنا چوگنا کر رہے ہیں۔“ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کا خرچ کیا ہوا مال کئی گنا ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس مال کو ان کے لیے بڑھاتا رہتا ہے حتیٰ کہ وہ بہت زیادہ ہوجاتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد : ﴿ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ﴾ دلالت کرتا ہے وہ صدقہ، جس کا دینے والا اضطرار سے دوچار ہو، یا صدقہ دینے والے کے ذمہ قرض ہو جو اس نے ادا نہیں کیا اور اس کی بجائے صدقے کو مقدم رکھا تو اس زکوٰۃ پر بندے کو اس کا اجر نہیں ملے گا اور اس کا یہ تصرف شرعاً مردود ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ الَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَكَّىٰ﴾ (اللیل : 93؍18) ” جو پاک ہونے کے لیے اللہ کے راستے میں اپنا مال عطا کرتا ہے۔“ مجرد مال عطا کرنا بھلائی نہیں جب تک کہ وہ وصف مذکور کے ساتھ نہ ہو یعنی عطا کرنے والے کا مقصد پاک ہونا ہو۔