سورة الروم - آیت 33

وَإِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْا رَبَّهُم مُّنِيبِينَ إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا أَذَاقَهُم مِّنْهُ رَحْمَةً إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُم بِرَبِّهِمْ يُشْرِكُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

لوگوں کو جب کبھی کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو اپنے رب کیطرف (پوری طرح) رجوع ہو کر دعائیں کرتے ہیں، پھر جب وہ اپنی طرف سے رحمت کا ذائقہ چکھاتا ہے تو ان میں سے ایک جماعت اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے لگتی ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ وَإِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ ﴾ ” اور جب لوگوں کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے۔“ یعنی مرض یا ہلاکت کا خوف وغیرہ ﴿ دَعَوْا رَبَّهُم مُّنِيبِينَ إِلَيْهِ ﴾ ”تو اپنے رب کی طرف رجوع کرتے ہوئے اسے پکارتے ہیں۔“ اور اس حال میں وہ اپنے اس شرک کو فراموش کردیتے ہیں جو وہ کیا کرتے تھے کیونکہ انہیں علم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں جو ان کی تکلیف کو دور کرسکے۔ ﴿ ثُمَّ إِذَا أَذَاقَهُم مِّنْهُ رَحْمَةً﴾ ” پھر جب وہ ان کو اپنی رحمت کا مزہ چکھاتا ہے۔“ یعنی ان کو ان کی بیماری سے شفایاب اور ہلاکت کے خوف سے نجات دیتا ہے ﴿ إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُم﴾ تو ان میں سے ایک فریق اس انابت کو ترک کرتے ہوئے جو اس سے صادر ہوئی تھی، ایسی ہستیوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک بنا دیتا ہے جو ان کی خوش بختی اور بدبختی، ان کے فقر اور غنا پر کوئی اختیار نہیں رکھتیں۔ یہ سب کچھ ان احسانات و عنایات کی ناشکری ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے ان کو نوازا، شدت اور تکلیف سے ان کو بچایا اور مشقت کو ان سے دور کیا، تب انہوں نے اس نعمت جلیلہ کو اپنے تمام احوال میں شکر اور دائمی اخلاص کے ساتھ کیوں قبول نہ کیا؟