سورة الروم - آیت 30

فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

پس آپ یک سو ہو کر اپنا منہ دین کی طرف متوجہ کردیں (١) اللہ تعالیٰ کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے (٢) اس اللہ تعالیٰ کے بنائے کو بدلنا نہیں (٣) یہی سیدھا دین ہے (٤) لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔ (٥)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ تمام احوال میں اخلاص اور اقامت دین کا حکم دیتا ہے، لہٰذا فرمایا : ﴿فَأَقِمْ وَجْهَكَ﴾ اپنے آپ کو دین کی طرف متوجہ رکھیے اور اس سے مراد اسلام، ایمان اور احسان ہے، یعنی اپنے قلب و قصد اور بدن کے ساتھ ظاہری شرائع کو قائم کیجیے، مثلاً نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج وغیرہ اور اس کے ساتھ ساتھ باطنی شرائع پر عمل کیجیے، مثلاً: اللہ تعالیٰ سے محبت، اس سے خوف، اس پر امید اور اس کی طرف انابت وغیرہ۔ ظاہری اور باطنی شرائع میں احسان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرے کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے، اگر یہ کیفیت پیدا نہ ہوسکے تو اس طرح اس کی عبادت کرے کہ اللہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ” چہرے کو قائم رکھنے“ کا خاص طور پر ذکر کیا ہے کیونکہ قلب کی توجہ، چہرے کی توجہ کی پیروی کرتی ہے اور ان دونوں امور پر بدن کی سعی مترتب ہوتی ہے اسی لیے فرمایا : ﴿حَنِيفًا﴾ یعنی ہر طرف سے منہ پھیر کر صرف اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ رکھتے ہوئے۔ یہ چیز جس کا ہم نے آپ کو حکم دیا ہے وہ ﴿فِطْرَتَ اللّٰـهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا﴾ ” اللہ کی فطرت ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی عقول میں فطرت کے محاسن اور غیر فطرت کے قبائح ودیعت کردیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے شریعت کے تمام ظاہری اور باطنی احکام کی طرف تمام مخلوق کے دلوں میں میلان رکھ دیا ہے تو درحقیقت اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں حق کی محبت اور حق کو ترجیح دینے کو ودیعت کردیا اور یہی فطرت کی حقیقت ہے۔ جو کوئی اس اصول سے باہر ہے تو اس کا سبب کوئی عارضہ ہے جو اس کی فطرت کو لاحق ہے جس نے اسے فاسد کرکے رکھ دیا ہے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ﴿كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ ﴾ [صحیح البخاری، باب قوله: ﴿ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ۔۔۔۔۔۔۔﴾(السجدة:32؍17) حدیث :4779 وصحیح مسلم، الجنة وصفة نعیمھا وأھلھا، باب صفة الجنة، حدیث:2824)” ہر بچہ فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے پس اس کے ماں باپ اسے یہودی بنا دیتے ہیں یا نصرانی یا مجوسی۔ “ ﴿لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللّٰـهِ﴾ ” اللہ کی تخلیق میں تغیر و تبدل نہیں ہوسکتا۔“ کوئی ایسی ہستی نہیں جو اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو تبدیل کرسکے اور اس کو ایسی وضع پر تبدیل کردے جو اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ وضع سے مختلف ہے ﴿ذٰلِكَ﴾ ” یہ“ جس کا ہم نے آپ کو حکم دیا ہے ﴿الدِّينُ الْقَيِّمُ﴾ ” سیدھا دین ہے“ یعنی سیدھا راستہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے عزت و تکریم کے گھر تک پہنچاتا ہے جو کوئی ہر طرف سے توجہ ہٹاکر دین میں یکسو ہوتا ہے وہ اپنے تمام شرائع اور تمام طریقوں میں صراط مستقیم پر گامزن ہے۔ ﴿وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾ ” لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔“ اس لیے وہ دین کی معرفت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے اگر انہیں دین کی معرفت حاصل ہو ہی جائے تو اس پر عمل پیرا نہیں ہوتے۔