وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّلْعَالِمِينَ
اس (کی قدرت) کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا اختلاف (بھی) ہے (١) دانش مندوں کیلئے اس میں یقیناً بڑی نشانیاں ہیں۔
اہل علم وہ لوگ ہیں جو مقام عبرت کو سمجھتے ہیں اور آیات الٰہی میں تدبر کرتے ہیں۔ اس بارے میں بہت سی آیات وارد ہوئی ہیں۔ اللہ کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے اندر موجود ہے اسے پیدا کرنا ہے۔ یہ تخلیق اللہ تعالیٰ کی عظمت سلطان اور اس کے کامل اقتدار پر دلالت کرتی ہے جو ان بڑی بڑی مخلوقات کو وجود میں لایا، نیز یہ تخلیق اللہ کی کامل حکمت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ ان مخلوقات کی تخلیق میں کمال درجے کی مہارت اور وسعت علم پائی جاتی ہے کیونکہ خالق کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی مخلوق کے بارے میں پورا علم رکھتا ہو۔ ﴿أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ﴾ )الملک : 67؍14( ” بھلا جس نے پیدا کیا ہے وہ بے علم ہوسکتا ہے؟“ نیز یہ تخلیق اللہ تعالیٰ کی عمومی رحمت اور اس کے فضل و کرم پر دلالت کرتی ہے کیونکہ ان کی تخلیق میں منافع جلیلہ ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ارادے کا مالک ہے وہ جو چاہتا ہے خصوصیات کی بنا پر اس کو منتخب کرلیتا ہے۔ وہ اکیلا اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور اس کو ایک مانا جائے چونکہ وہ تخلیق میں یکتا ہے اس لیے وہ مستحق ہے کہ وہ عبادت میں بھی یکتا ہو۔ یہ تمام عقلی دلائل ہیں، اللہ تعالیٰ نے عقل انسانی کو ان کی طرف توجہ دلائی ہے اور انہیں ان میں غور و فکر کرنے اور عبرت حاصل کرنے کا حکم دیا ہے۔ ﴿وَ﴾ ” اور“ اسی طرح ﴿اخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ﴾ ” تمہاری زبانوں اور رنگوں کا جدا جدا ہونا۔“ بھی نشانی ہے جو تمہاری کثرت اور ایک دوسرے سے جدا ہونے کی بنا پر ہے حالانکہ تمہاری اصل ایک اور حروف کے مخارج ایک ہیں۔ بایں ہمہ آپ دو آوازیں بھی ایسی نہیں پائیں گے جو ہر لحاظ سے ایک جیسی ہوں نہ دو رنگ ایسے پائیں گے جو ہر لحاظ سے مشابہت رکھتے ہوں آپ دونوں کے درمیان ضرور فرق پائیں گے جس کے ذریعے سے ان کے مابین امتیاز کیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور مشیت نافذہ پر دلالت کرتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر عنایت اور رحمت ہے کہ اس نے ان کے درمیان زبانوں اور رنگوں کا اختلاف پیدا کیا تاکہ ان میں تشابہ واقع نہ ہو جس کی بنا پر اضطراب پیدا ہوجائے اور بہت سے مقاصد و مطالب فوت ہوجائیں۔