يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ
وہ تو (صرف) دنیاوی زندگی کے ظاہر کو (ہی) جانتے ہیں اور آخرت سے بالکل ہی بے خبر ہیں (١)۔
﴿يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾ ” وہ تو صرف دنیاوی زندگی کے ظاہر کو دیکھ سکتے ہیں۔“ یہ لوگ صرف اسباب پر نظر رکھتے ہیں۔ وہ ان واقعات کے وقوع پذیر ہونے پر حتمی یقین رکھتے ہیں جن کے اسباب ان کی رائے کے مطابق پورے ہوچکے ہوں اور اگر انہوں نے ان اسباب کا مشاہدہ نہ کیا ہو جو ان واقعات کے وقوع کا تقاضا کرتے ہیں تو وہ ان کے عدم وقوع پر پورا یقین رکھتے ہیں۔ پس یہ لوگ اسباب کے ساتھ ٹھہرے ہوئے ہیں ان کی نظر مسبب الاسباب پر نہیں جو ان اسباب میں تصرف کی پوری قدرت رکھتا ہے۔ ﴿وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ﴾ ” اور وہ آخرت سے غافل ہیں۔“ ان کے دل، ان کی خواہشات اور ان کے ارادے، دنیا اور دنیا کی شہوات اور اس کے چند ٹکڑوں پر مرتکز ہیں۔ ان کے ارادے اور خواہشات اس دنیا کے لیے کام کرتے ہیں، اسی کے لیے کوشاں اسی کی طرف متوجہ اور آخرت سے غافل ہیں۔ ان کے سامنے کوئی جنت نہیں جس کا انہیں اشتیاق ہو، ان کے سامنے کوئی جہنم نہیں جس کا انہیں خوف ہو اور نہ اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہی کے لیے کھڑے ہونے کا تصور ہے، جس سے یہ ڈر کر کانپ اٹھتے ہوں۔ یہ بدبختی کی علامت اور آخرت سے غفلت کا عنوان ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ اس گروہ کے لوگ اس ظاہری دنیا میں ذہانت اور فطانت کے اس درجے تک پہنچے ہوئے ہیں جس سے عقل حیران اور دہشت زدہ ہوجاتی ہے۔ ان کے ہاتھوں برقی اور جوہری عجائبات ظاہر ہوئے، انہوں نے بری، بحری اور فضائی سواریاں ایجاد کیں، وہ اپنی عقل کی مدد سے سب پر فوقیت لے گئے اور اپنی عقل کے ذریعے سے لوگوں کو حیران کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں وہ قدرت عطا کی جس کے سامنے دیگر لوگ عاجز تھے۔ پس انہوں نے دوسروں کو نہایت حقارت کی نظر سے دیکھا حالانکہ وہ خود اپنے دین کے معاملے میں سب سے زیادہ کند ذہن، اپنی آخرت کے بارے میں سب سے زیادہ غافل اور اپنی عاقبت کے بارے میں سب سے کم علم رکھتے ہیں۔ اہل بصیرت کی رائے ہے کہ وہ اپنی جہالت میں پاگل، اپنی گمراہی میں سرگرداں اور اپنے باطل میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو فراموش کردیا جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو بھلا دیا۔ درحقیقت یہ لوگ نافرمان ہیں۔ اگر وہ ان صلاحیتوں پر غور کریں جن سے اللہ تعالیٰ نے ان کو بہرہ ور کیا ہے اور اس ظاہری دنیا میں انہیں دقیق افکار سے نوازا، پھر غور کریں کہ انہوں نے اپنے آپ کو عقل عالی سے محروم کیا، تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ تمام معاملہ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے، اس کے بندوں میں اسی کا حکم جاری ہے اور یہ سب اس کی توفیق یا عدم توفیق کا معاملہ ہے تو وہ اپنے رب سے ڈرنے لگیں اور اس سے دعا کریں کہ وہ ان کی عقل اور ایمان کی تکمیل کرے جو اس نے ان کو عطا کی ہے حتیٰ کہ وہ اس کے پاس پہنچ جائیں اور اس کے جوار میں نازل ہوجائیں۔ اگر یہ صلاحیتیں ایمان کے ساتھ مقرون ہوتیں اور ان کی بنیاد ایمان پر اٹھائی گئی ہوتی تو ترقی کے ساتھ ساتھ پاک صاف زندگی اس کا ثمرہ ہوتی مگر چونکہ ان کی بہت سی صلاحیتیں الحاد پر مبنی ہیں اس لیے ان کا نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں۔