فِي بِضْعِ سِنِينَ ۗ لِلَّهِ الْأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ ۚ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ
چند سال میں ہی، اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی اختیار اللہ تعالیٰ ہی کا ہے۔ اس روز مسلمان شادمان ہوں گے۔
﴿ فِي بِضْعِ سِنِينَ﴾ ” چند سالوں میں۔“ تقریباً آٹھ نو سال کی مدت میں جو دس سال سے زیادہ اور تین سال سے کم نہ ہوگی۔ یہ رومیوں پر ایرانیوں کی فتح اور پھر ایرانیوں پر رومیوں کا غلبہ سب اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کی قضا و قدر پر مبنی ہے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿لِلّٰـهِ الْأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ﴾ ’’اس (شکست) سے پہلے بھی اللہ ہی کا حکم چلتا تھا اور بعد میں بھی اسی کا چلے گا۔“ یعنی غلبہ اور فتح و نصرت مجرد وجود اسباب پر منحصر نہیں ہوتے بلکہ ان کے لیے قضا و قدر کا مقرون ہونا ضروری ہے ﴿وَيَوْمَئِذٍ ﴾ ” اور اس روز“ یعنی جس روز رومیوں کو ایرانیوں کے خلاف فتح حاصل ہوگی اور وہ ان پر غالب آئیں گے ﴿ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ بِنَصْرِ اللّٰـهِ يَنصُرُ مَن يَشَاءُ﴾ ” اہل ایمان خوش ہو رہے ہوں گے اللہ کی مدد سے۔ وہ جسے چاہتا ہے مدد دیتا ہے۔“ یعنی اہل ایمان ایرانیوں کے خلاف رومیوں کی فتح پر خوش ہو رہے ہوں گے۔۔۔ اگرچہ دونوں قومیں کافر تھیں تاہم کچھ برائیاں بعض دیگر برائیوں سے کم تر ہوتی ہیں۔۔۔ اور اس روز مشرکین سوگ منا رہے ہوں گے۔ ﴿وَهُوَ الْعَزِيزُ﴾ ” اور وہ غالب ہے۔“ یعنی اللہ وہ ہستی ہے جو عزت و غلبہ کی مالک ہے جس کی بنا پر وہ تمام مخلوقات پر غالب ہے۔“ یعنی اللہ وہ ہستی ہے جو عزت و غلبہ کی مالک ہے جس کی بنا پر وہ تمام مخلوقات پر غالب ہے۔ اللہ جسے چاہتا ہے اقتدار عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے اقتدار چھین لیتا ہے، جسے چاہتا ہے عزت سے سرفراز کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کردیتا ہے۔ ﴿ الرَّحِيمُ﴾ اپنے مومن بندوں پر بہت زیادہ رحم کرنے والا ہے، کیونکہ اس نے ان کے لیے بے حد و حساب اسباب فراہم کیے جو ان کو سعادت مند بناتے اور فتح و نصرت سے ہم کنار کرتے ہیں۔