سورة العنكبوت - آیت 53

وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ ۚ وَلَوْلَا أَجَلٌ مُّسَمًّى لَّجَاءَهُمُ الْعَذَابُ وَلَيَأْتِيَنَّهُم بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یہ لوگ آپ سے عذاب کی جلدی کر رہے ہیں (١) اگر میری طرف سے مقرر کیا ہوا وقت نہ ہوتا تو ابھی تک ان کے پاس عذاب آچکا ہوتا (٢) یہ یقینی بات ہے کہ اچانک ان کی بے خبری میں ان کے پاس عذاب آپہنچے (٣)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن کی تکذیب کرنے والے جہلا کی جہالت کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے، نیز یہ کہ وہ عذاب کے لیے جلدی مچاتے اور تکذیب میں اضافہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : ﴿مَتَىٰ هٰذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ﴾ (الملک : 67؍25) ”یہ وعدہ کب ہے اگر تم سچے ہو۔“ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿وَلَوْلَا أَجَلٌ مُّسَمًّى﴾ اگر اس عذاب کے لیے ایک مدت مقرر نہ کردی گئی ہوتی ﴿لَّجَاءَهُمُ الْعَذَابُ﴾ ” تو ان پر عذاب آچکا ہوتا۔“ یعنی ان پر ہمیں عاجز اور بے بس سمجھنے اور حق کی تکذیب کرنے کی بنا پر عذاب نازل ہوجاتا۔ اگر ہم ان کو ان کی جہالت کی بنا پر پکڑتے تو ان کی باتیں انہیں فوراً عذاب میں مبتلا کرنے کا باعث بن جاتیں، بایں ہمہ اس کے وقت نزول کو دور نہ سمجھیں کیونکہ یہ عذاب عنقریب ان کو پہنچے گا ﴿بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ﴾ ” اچانک اور ان کو معلوم بھی نہیں ہوگا۔“ لہٰذا ایسے ہی ہوا جیسے اللہ تعالیٰ نے خبر دی تھی۔ جب وہ اتراتے اور تکبر کرتے ہوئے میدان ” بدر“ میں اترے تو وہ سمجھتے تھے کہ وہ اپنا مقصد حاصل کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ذلیل و رسوا کیا، ان کے بڑے بڑے سردار قتل ہوگئے اور تمام شریر لوگوں کا استیصال ہوگیا اور (مکہ میں)کوئی گھرانہ ایسا نہ بچا جسے یہ مصیبت نہ پہنچی ہو۔