مَثَلُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ أَوْلِيَاءَ كَمَثَلِ الْعَنكَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَيْتًا ۖ وَإِنَّ أَوْهَنَ الْبُيُوتِ لَبَيْتُ الْعَنكَبُوتِ ۖ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ
جن لوگوں نے اللہ کے سوا اور کارساز مقرر کر رکھے ہیں ان کی مثال مکڑی کی سی ہے کہ وہ بھی ایک گھر بنا لیتی ہے، حالانکہ تمام گھروں سے زیادہ کمزور گھر مکڑی کا گھر ہی ہے (١) کاش! وہ جان لیتے۔
یہ مثال، اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس شخص کے لئے بیان کی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسری ہستیوں کی عبادت بھی کرتا ہے اور اس کا مقصد ان سے عزت، قوت اور منفعت کا حصول ہے حالانہ حقیقت اس کے مقصود کے بالکل برعکس ہے۔ اس شخص کی مثال اس مکڑی کی سی ہے جس نے جالے کا گھر بنایا ہوتا کہ گرمی سردی اور دیگر آفات سے محفوظ رہے۔ ﴿ وَإِنَّ أَوْهَنَ الْبُيُوتِ ﴾ مگر سب سے کمزور گھر ﴿ لَبَيْتُ الْعَنكَبُوتِ﴾ ” مکڑی کا گھر ہوتا ہے‘‘ مکڑی کا شمار کمزور حیوانات میں ہوتا ہے اور اس کا گھر تو سب سے کمزور گھر ہے وہ گھر بنا کر اس میں کمزوری کے سوا کچھ اضافہ نہیں کرتی۔ اسی طرح مشرکین نے جو اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے سر پرست بنا رکھی ہیں وہ ہر لحاظ سے محتاج اور عاجز ہیں یہ لوگ غیر اللہ کی اس لئے عبادت کرتے ہیں تاکہ ان کے ذریعے سے عزت اور فتح و نصرت حاصل کریں مگر وہ اپنی کمزوری اور بے بسی ہی میں اضافہ کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے بہت سے مصالح کو ان پر بھروسہ کرتے ہوئے ان پر چھوڑ دیا اور ان سے الگ ہوگئے کہ عنقریب ان کے معبود ذمہ داری اٹھالیں گے تو ان کی معبودوں نے ان کو چھوڑ دیا۔ پس انہیں ان سے کوئی فائدہ اور کوئی ادنیٰ سی مدد بھی حاصل نہیں ہوسکی۔ اگر انہیں اپنے حال کے بارے میں حقیقی علم ہوتا اور انہیں ان ہستیوں کی بے بسی کا حال بھی معلوم ہوتا تو وہ انہیں کبھی معبود نہ بناتے ان سے براءت کا اظہار کرتے اور رب قادر و رحیم کو اپنا والی و مددگار بناتے۔ بندہ جب اس قادر و رحیم کو اپنا سر پرست بنا کر اس پر بھروسہ کرتا ہے تو وہ اس کے دین و دنیا کے لئے کافی ہوجاتا ہے۔ اس کے قلب و بدن اور حال و اعمال میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے مشرکین کے معبودان باطل کی کمزوری بیان کرنے کے بعد اس سے زیادہ بلیغ اسلوب کی طرف ارتقاء کیا، فرمایا کہ ان معبودان کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں بلکہ یہ تو مجرد نام ہیں جو انہوں نے گھڑ لئے ہیں اور محض وہم و گمان ہے جس کو انہوں نے عقیدہ بنا لیا ہے۔