سورة العنكبوت - آیت 40

فَكُلًّا أَخَذْنَا بِذَنبِهِ ۖ فَمِنْهُم مَّنْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا وَمِنْهُم مَّنْ أَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ وَمِنْهُم مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْأَرْضَ وَمِنْهُم مَّنْ أَغْرَقْنَا ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

پھر تو ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ کے وبال میں گرفتار کرلیا (١) ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کا مینہ برسایا (٢) اور ان میں سے بعض کو زور دار سخت آواز نے دبوچ لیا (٣) اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا (٤) اور ان میں سے بعض کو ہم نے ڈبو دیا (٥) اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ ان پر ظلم کرے بلکہ یہی لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے (٦)۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ فَكُلًّا ﴾ ” پس سب کو۔“ یعنی انبیاء کی تکذیب کرنے والی ان تمام قوموں کو ﴿ أَخَذْنَا بِذَنبِهِ﴾ ہم نے ان کے گناہ کی مقدار اور اس گناہ سے مناسبت والی سزا کے ذریعے سے پکڑ لیا۔ ﴿ فَمِنْهُم مَّنْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا ﴾ ” پس ان میں کچھ تو ایسے تھے جن پر ہم نے پتھروں کا مینہ برسایا۔“ یعنی ہم نے ان پر ایسا عذاب نازل کیا جس میں ان کو پتھر مار کر ہلاک کیا جیسے قوم عاد اللہ تعالیٰ نے اس پر تباہ کن آندھی بھیجی اور ﴿سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ سَبْعَ لَيَالٍ وَثَمَانِيَةَ أَيَّامٍ حُسُومًا فَتَرَى الْقَوْمَ فِيهَا صَرْعَىٰ كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍ ﴾ (الحاقۃ:69؍7) ” اس ہوا کو سات رات اور آٹھ دن تک لگاتار چلائے رکھا تو تو ان نافرمان لوگوں کو اس میں اس طرح مرے پڑے ہوئے دیکھتا ہے جیسے کھجوروں کے کھوکھلے تنے ہوں۔ “ ﴿ وَمِنْهُم مَّنْ أَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ ﴾ ” اور کچھ ایسے تھے جن کو چنگھاڑنے آپکڑا‘‘ جیسے صالح صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوم ﴿ وَمِنْهُم مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْأَرْضَ ﴾ ” اور کچھ ایسے تھے جن کو ہم نے زمین میں دھنسادیا۔‘‘ جیسے قارون ﴿ وَمِنْهُم مَّنْ أَغْرَقْنَا ﴾ ” اور کچھ ایسے تھے جن کو ہم نے غرق کردیا۔“ جیسے فرعون، ہامان اور ان کے لشکر ﴿ وَمَا كَانَ اللّٰـهُ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ کے لئے مناسب اور اس کے لائق نہیں کہ وہ اپنے کمال عدل اور مخلوق سے کامل بے نیازی کی بناء پر بندوں پر ظلم کرتا ﴿ وَلَـٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ ﴾ ” لیکن وہ اپنے ہی نفوس پر ظلم کرتے تھے۔“ انہوں نے اپنے نفوس کو ان کے حقوق سے محروم کردیا۔ کیونکہ نفوس اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ ان مشرکین نے ان کو ایسے کاموں میں استعمال کیا جن کے لئے وہ پیدا نہیں کئے گئے انہوں نے ان کو شہوات میں مشغول کر کے سخت نقصان پہنچایا جبکہ وہ اس گمان باطل میں مبتلا رہے کہ وہ ان کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔