فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَن قَالُوا اقْتُلُوهُ أَوْ حَرِّقُوهُ فَأَنجَاهُ اللَّهُ مِنَ النَّارِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
ان کی قوم کا جواب بجز اس کے کچھ نہ تھا کہ کہنے لگے کہ اس مار ڈالو یا اسے جلا (١) دو آخر اللہ نے انھیں آگ سے بچا لیا (٢) اس میں ایماندار لوگوں کے لئے تو بہت سی نشانیاں ہیں۔
یعنی جب ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کو اپنے رب کی طرف بلایا تو آپ کی قوم نے آپ کی دعوت پر لبیک کہی نہ آپ کی خیر خواہی کی اور نہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی بعثت کی نعمت کی رؤیت کو اپنا راہنما ہی بنایا۔ ان کا جواب تو بدترین جواب تھا۔﴿ قَالُوا اقْتُلُوهُ أَوْ حَرِّقُوهُ﴾ ’’انہوں نے کہا اسے مارڈالو یا جلا دو۔“ یعنی اسے بدترین طریقے سے قتل کرو۔ وہ قدرت رکھنے والے اصحاب اقتدار لوگ تھے چنانچہ انہوں نے ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈال دیا ﴿ فَأَنجَاهُ اللّٰـهُ﴾ پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو بچا لیا آگ سے﴿ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾”بے شک اس میں ایمان دار لوگوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔‘‘ پس وہ اہل ایمان اور انبیاء ورسل کی تعلیمات کی صحت ان کی نیکی اور ان کی خیر خواہی اور انبیاء ورسل کے مخالفین و معارضین کے موقف کے بطلان کو خوب جانتے تھے۔ گویا رسولوں کے مخالفین ان کی تکذیب کی ایک دوسرے کو وصیت کیا کرتے اور ایک دوسرے کو ترغیب دیا کرتے تھے۔