سورة العنكبوت - آیت 10

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ فَإِذَا أُوذِيَ فِي اللَّهِ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللَّهِ وَلَئِن جَاءَ نَصْرٌ مِّن رَّبِّكَ لَيَقُولُنَّ إِنَّا كُنَّا مَعَكُمْ ۚ أَوَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِمَا فِي صُدُورِ الْعَالَمِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو زبانی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں لیکن جب اللہ کی راہ میں کوئی مشکل آن پڑتی ہے تو لوگوں کی ایذاء دہی کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کی طرح بنا لتے ہیں، (١) ہاں اگر اللہ کی مدد آجائے (٢) تو پکار اٹھتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ساتھی ہی ہیں (٣) کیا دنیا جہان کے سینوں میں جو کچھ ہے اسے اللہ تعالیٰ جانتا نہیں ہے؟ (٤)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ ذکر فرمایا کہ اس شخص کی آزمائش ہونا لازمی ہے جو ایمان کا دعویٰ کرتا ہے تاکہ سچے اور جھوٹے کے درمیان فرق ظاہر ہوجائے، تو یہ بھی واضح کردیا کہ لوگوں میں سے ایک گروہ محن و ابتلاء پر صبر نہیں کرسکتا بعض تکلیفوں اور مصیبتوں پر ثابت قدم نہیں رہ سکتا، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللّٰـهِ فَإِذَا أُوذِيَ فِي اللّٰـهِ ﴾ اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ پر ایمان لائے اور جب ان کو اللہ (کے راستے) میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے۔ مار کر مال چھین کر اور عار دلا کر اسے اذیت دی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے دین کو چھوڑ کر باطل کی طرف لوٹ آئے ﴿ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللّٰـهِ ﴾ تو لوگوں کی تکلیف (یوں) سمجھتے ہیں جیسے اللہ کا عذاب لوگوں کی ایذا رسانی انہیں متزلزل کر کے ایمان سے روک دیتی ہے جیسے عذاب انہیں اس چیز سے روک دیتا ہے جو اس عذاب کی باعث بنتی ہے۔ ﴿ وَلَئِن جَاءَ نَصْرٌ مِّن رَّبِّكَ لَيَقُولُنَّ إِنَّا كُنَّا مَعَكُمْ ﴾ اور اگر تمہارے رب کی طرف سے مدد پہنچے تو کہتے ہیں ہم تو تمہارے ساتھ تھے۔ کیونکہ یہ ان کی خواہشات نفس کے موافق ہے۔ یہ لوگوں کی اس صنف سے تعلق رکھتے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَن يَعْبُدُ اللّٰـهَ عَلَىٰ حَرْفٍ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ ۖ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انقَلَبَ عَلَىٰ وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ ذَٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ ﴾ (الحج :22؍11) اور لوگوں میں وہ شخص بھی ہے جو کنارے پر رہ کر اللہ کی عبادت کرتا ہے اگر بھلائی پہنچے تو مطمئن ہوجاتا ہے اور کوئی مصیبت آجائے تو الٹے پاؤں پھر جاتا ہے۔ وہ دنیا و آخرت میں خسارے میں ہے اور یہ واضح خسارہ ہے۔ “ ﴿ أَوَلَيْسَ اللّٰـهُ بِأَعْلَمَ بِمَا فِي صُدُورِ الْعَالَمِينَ ﴾ ’’کیا جو جہان والوں کے سینوں میں ہے اللہ اس سے واقف نہیں؟“ اس نے تمہیں اس فریق کے بارے میں آگاہ فرمایا جن کا حال وہی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے وصف بیان فرمایا ہے پس تم اس بات سے اس کے کامل علم اور بے پایاں حکمت کو جان سکتے ہو۔