وَمَا كُنتَ تَرْجُو أَن يُلْقَىٰ إِلَيْكَ الْكِتَابُ إِلَّا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ ظَهِيرًا لِّلْكَافِرِينَ
آپ کو تو کبھی خیال بھی نہ گزرا تھا کہ آپ کی طرف کتاب نازل فرمائی جائے گی (١) لیکن یہ آپ کے رب کی مہربانی سے اترا (٢) اب آپ کو ہرگز کافروں کا مددگار نہ ہونا چاہیے (٣)
فرمایا : ﴿ وَمَا كُنتَ تَرْجُو أَن يُلْقَىٰ إِلَيْكَ الْكِتَابُ ﴾ یعنی آپ اس بات کے خواہش مند نہ تھے کہ یہ کتاب آپ پر نازل کی جاتی اور نہ اس کے لئے تیار تھے اور نہ اس کے درپے تھے ﴿ إِلَّا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ ﴾ یہ تو آپ کے رب کی طرف سے آپ پر اور بندوں پر بے پایاں رحمت تھی کہ اس نے آپ کو اس کتاب کے ساتھ مبعوث کیا، اس نے تمام جہانوں پر رحم فرمایا اور انہیں وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتے تھے، انہیں پاک کیا اور انہیں کتاب و حکمت کا علم سکھایا اگرچہ اس سے پہلے لوگ صریح گمراہی میں مبتلا تھے۔ جب آپ کو یہ معلوم ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے رحمت کے طور پر آپ کی طرف یہ کتاب نازل کی ہے تو آپ کو یہ بھی معلوم ہوگیا کہ وہ تمام امور جن کا للہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور جن سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے سب اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کا فضل و کرم ہے، اس لئے آپ کے دل میں کسی قسم کی کچھ تنگی نہ ہو اور آپ یہ نہ سمجھیں کہ جو کچھ اس کے خلاف ہے، زیادہ درست اور زیادہ نفع مند ہے۔ ﴿ فَلَا تَكُونَنَّ ظَهِيرًا لِّلْكَافِرِينَ ﴾ یعنی کفارکے کفر پر ان کی اعانت نہ کیجئے۔ کفار کے کفر پر منجملہ اعانت یہ ہے کہ قرآن کی کسی آیت یا حکم کے بارے میں کہا جائے کہ یہ حکمت، مصلحت اور منفعت کے خلاف ہے۔