وَأَصْبَحَ الَّذِينَ تَمَنَّوْا مَكَانَهُ بِالْأَمْسِ يَقُولُونَ وَيْكَأَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ ۖ لَوْلَا أَن مَّنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا لَخَسَفَ بِنَا ۖ وَيْكَأَنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ
اور جو لوگ کل اس کے مرتبہ پر پہنچنے کی آرزو مندیاں کر رہے تھے وہ آج کہنے لگے کہ کیا تم نہیں دیکھتے (١) کہ اللہ تعالیٰ ہی اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہے روزی کشادہ کردیتا ہے اور تنگ بھی؟ اگر اللہ تعالیٰ ہم پر فضل نہ کرتا تو ہمیں بھی دھنسا دیتا (٢) کیا دیکھتے نہیں ہو کہ ناشکروں کو کبھی کامیابی نہیں ہوتی (٣)۔
﴿وَأَصْبَحَ الَّذِينَ تَمَنَّوْا مَكَانَهُ بِالْأَمْسِ﴾ ” اور وہ لوگ جو کل اس کے مقام و مرتبے کی تمنا کرتے تھے۔“ یعنی وہ لوگ جو دنیا کی زندگی کے خواہش مند تھے اور کہا کرتے تھے : ﴿ يَا لَيْتَ لَنَا مِثْلَ مَا أُوتِيَ قَارُونُ ﴾ ” کاش ہمیں بھی وہ کچھ مل جاتا جو قارون کو عطا کیا گیا ہے۔‘‘ ﴿يَقُولُونَ ﴾ ” وہ کہنے لگے“ دکھ محسوس کرتے، عبرت پکڑتے اور ڈرتے ہوئے کہ کہیں وہ بھی عذاب کی گرفت میں نہ آجائیں : ﴿وَيْكَأَنَّ اللّٰـهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ﴾ ” ہماری حالت پر افسوس ! اللہ اپنے بندوں سے جس کا چاہے رزق وسیع کردیتا ہے اور جس کا چاہے تنگ کردیتا ہے“ تب ہمیں معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قارون کے رزق میں فراخی، اس بات کی دلیل نہیں کہ اس میں اس میں کوئی بھلائی ہے، اور ہم یہ کہنے میں حق بجانب نہ تھے ﴿ إِنَّهُ لَذُو حَظٍّ عَظِيمٍ ﴾ ” قارون تو بڑے ہی نصیبے والا ہے۔ “ ﴿لَوْلَا أَن مَّنَّ اللّٰـهُ عَلَيْنَا ﴾ ” اگر ہم پر اللہ کی عنایت نہ ہوتی“ تو وہ ہماری بات پر ہماری گرفت کرلیتا اور اگر اس کا فضل و کرم نہ ہوتا ﴿لَخَسَفَ بِنَا ﴾ ” تو وہ ہمیں بھی زمین میں دھنسا دیتا“۔ قارون کی ہلاکت اس کے لئے سزا اور دوسروں کے لئے عبرت اور نصیحت تھی۔ حتیٰ کہ وہ لوگ بھی، جو قارون پر رشک کیا کرتے تھے نادم ہوئے اور قارون کے بارے میں ان کا نقطہ نظر بدل گیا۔ ﴿وَيْكَأَنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ﴾ ” اور حقیقت یہی ہے کہ کافر فلاح نہیں پائیں گے“ یعنی دنیا و آخرت میں۔