سورة النمل - آیت 19

فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّن قَوْلِهَا وَقَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اس کی اس بات سے حضرت سلیمان مسکرا کر ہنس دیئے اور دعا کرنے لگے کہ اے پروردگار! تو مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمتوں کا شکر بجا لاؤں جو تو نے مجھ پر انعام کی ہیں (١) اور میرے ماں باپ پر اور میں ایسے نیک اعمال کرتا رہوں جن سے تو خوش رہے مجھے اپنی رحمت سے نیک بندوں میں شامل کرلے۔ (٢)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

حضرت سلیمان علیہ السلام نے چیونٹی کی بات سن لی اور آپ اس کو سمجھ بھی گئے۔ ﴿ فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّن قَوْلِهَا ﴾ ” پس وہ سلیمان علیہ السلام چیونٹی کی بات سن کر ہنس پڑے۔“ چیونٹی کی اپنی ہم جنسوں کے بارے میں اور خود اپنے بارے میں خیر خواہی اور حسن تعبیر پر خوش ہو کر مسکرا پڑے یہ انبیائے کرام کا حال ہے جو ادب کامل اور اپنے مقام پر اظہار تعجب کو شامل ہے نیز یہ کہ ان کا ہنسنا تبسم کی حد تک ہوتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زیادہ تر ہنسنا مسکراہٹ کی حد تک ہوتا تھا۔ کیونکہ قہقہہ لگا کر ہنسنا خفت عقل اور سوء ادب پر دلالت کرتا ہے۔ خوش ہونے والی بات پر خوش نہ ہونا اور عدم تبسم بدخلقی اور طبیعت کی سختی پر دلالت کرتا ہے اور انبیاء و رسل اس سے پاک ہوتے ہیں۔ سلیمان علیہ السلام نے اللہ تبارک و تعالیٰ کا، جس نے اسے یہ مقام عطا کیا، شکر ادا کرتے ہوئے کہا : ﴿ رَبِّ أَوْزِعْنِي ﴾ یعنی اے رب ! مجھے الہام کر اور مجھے توفیق دے ﴿ أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ ﴾ ” کہ جو احسان تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کیے ہیں، ان کا شکر کروں۔“ کیونکہ والدین کو نعمت عطا ہونا اولاد کو نعمت عطا ہونا ہے۔ پس حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے رب سے اس دینی اور دنیاوی نعمت پر، جو اس نے انہیں اور ان کے والدین کو عطا کی، شکر ادا کرنے کی توفیق کا سوال کیا : ﴿ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ ‘﴾ ” اور یہ کہ ایسے نیک کام کروں کہ تو ان سے خوش ہوجائے۔“ یعنی مجھے توفیق عطا کر کہ میں ایسے نیک کام کروں جو تیرے حکم کے موافق، خالص تیرے لئے، مفسدات اور نقائص سے پاک ہوں، تاکہ تو ان سے راضی ہو۔ ﴿ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ ﴾ ” اور مجھے اپنی رحمت سے داخل فرما۔“ یعنی جنت بھی جس رحمت کا حصہ ہے۔ ﴿ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ ﴾ ” اپنے جملہ نیک بندوں میں“ کیونکہ رحمت، صالحین کے لئے، ان کے درجات اور منازل کے مطابق رکھی گئی ہے۔ یہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کی اس حالت کے نمونے کا ذکر ہے جو چیونٹی کی بات سن کر ہوئی تھی۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے پرندوں کے ساتھ سلیمان علیہ السلام کے مخاطب ہونے کا ایک اور نمونہ ذکر کیا۔