الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُم بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ
جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں (١)۔
اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ ﴾ ” جو نما زقائم کرتے ہیں۔“ یعنی جو فرض اور نفل نماز ادا کرتے ہیں، اس کے تمام ظاہری ارکان، شرائط، واجبات اور مستحباب کا پورا پورا خیال رکھتے ہیں نیز اس کے افعال باطنہ کا بھی خیال رکھتے ہیں اور افعال باطنہ سے مراد خشوع ہے جو کہ نما زکی روح اور اس کا لب لباب ہے جو اللہ کی قربت کے استحضار اور نمازی کا نماز کے اندر قراءت اور تسبیحات اور رکوع و سجود اور دیگر افعال میں تدبر و تفکر سے حاصل ہوتا ہے۔ ﴿ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ ﴾ ” اور (مستحق لوگوں کو) زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔“ ﴿ وَهُم بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ ﴾ ” اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔“ یعنی ان کے ایمان کی یہ کیفیت ہے کہ وہ درجۂ یقین تک پہنچا ہوا ہے۔ یقین سے مراد علم کا مل ہے جو قلب کی گہرائیوں میں اتر کر عمل کی دعوت دیتا ہے۔ آخرت پر ان کا یقین تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس کے حصول کے لئے پوری کوشش کریں، عذاب کے اسباب اور عقاب کے موجبات سے بچیں اور یہ ہر بھلائی کی بنیا دہے۔