سورة الشعراء - آیت 226

وَأَنَّهُمْ يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

اور وہ کہتے ہیں جو کرتے نہیں (١)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ وَأَنَّهُمْ يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ ﴾ ” اور بے شک وہ ایسی بات کہتے وہ ہیں جو وہ بذات خود نہیں کرتے۔“ یہ شعراء کا وصف ہے کہ ان کے قول و فعل میں سخت تضاد ہوتا ہے۔ اگر آپ کسی شاعر کو رقت انگیز غزل کہتے ہوئے سنیں گے تو آپ کہہ اٹھیں گے کہ یہ دنیا میں سب سے زیادہ عشق کا مارا ہوا شخص ہے حالانکہ اس کا دل عشق سے خالی ہوگا۔ اگر آپ اس کو کسی کی مدح یا مذمت کرتے ہوئے سنیں تو کہیں گے کہ یہ سچ ہے حالانکہ وہ جھوٹ ہوتا ہے۔ کبھی کبھی وہ بعض افعال پر اپنی ستائش آپ کرتا ہے حالانکہ وہ ان افعال کے قریب سے نہیں گزرا ہوتا، وہ افعال کے ترک کرنے پر اپنی تعریف کرتا ہے حالانکہ اس نے اس فعل کو کبھی ترک نہیں کیا ہوتا، وہ اپنی سخاوت کی تعریف میں زمین اور آسمان کے قلابے ملا دیتا ہے حالانکہ اس کا اس کو چے سے کبھی گزر ہی نہی ہوا ہوتا۔ وہ اپنی شجاعت کے تذکرے کرتا ہے جس کی بنا پر اس نے بڑے بڑے شہسواروں کو زیر کیا ہوتا ہے حالانکہ آپ اسے دیکھیں گے کہ وہ انتہائی بزدل ہے۔۔۔ یہ ہیں شعراء کے اوصاف۔ اب آپ غور کیجئے کہ آیا مرقومہ بالا احوال رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی ہدایت یافتہ اور پاکیزہ ہستی کے احوال سے مطابقت رکھتے ہیں، جن کی پیروی ہر وہ شخص کرتا ہے جو صاحب رشدو ہدایت ہے۔ آپ راہ راست پر نہایت استقامت سے گامزن اور ہلاکت کی وادیوں سے دور رہتے ہیں۔ آپ کے افعال تناقض سے پاک ہوتے ہیں اور آپ کے اقوال و افعال میں تضاد نہیں ہوتا۔ آپ صرف نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں، ہمیشہ سچی خبردیتے ہیں۔ اگر آپ کسی کام کے کرنے کا حکم دیتے ہیں تو اس پر سب سے پہلے خود عمل کرتے ہیں اور اگر کسی کام سے روکتے ہیں تو سب سے پہلے خود اس کام کو ترک کرتے ہیں۔ کیا آپ کا حال ان شاعروں کے احوال سے کوئی مناسبت رکھتا ہے یا ان کے احوالے کے کہیں قریب دکھائی دیتا ہے؟ یا ہر لحاظ سے آپ کے احوال ان شعراء حضرات کے احوال سے بالکل مختلف ہیں؟ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور اس کا سلام ہو ابدالآباد تک اس رسول اکمل اور سب سے افضل، عالی ہمت سردار پر جو شاعر ہے نہ ساحر و مجنون بلکہ اوصاف کمال کے سوا اور کچھ اس لائق نہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے شعراء کے یہ اوصاف بیان کرنے کے بعد ان میں ان شعراء کو مستثنیٰ قرار دیا ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں، نیک کام کرتے ہیں نہایت کثرت سے اللہ کا ذکر کرتے ہیں، اپنے مشرک دشمنوں سے ان کے ظلم کا بدلہ لیتے ہیں۔ ان کی شاعری ان کے اعمال صالحہ اور آثار ایمان میں شمار ہوتی ہے کیونکہ یہ اہل ایمان کی مدح، اہل کفرو شرک سے انتقام، اللہ تعالیٰ کے دین کے دفاع، علوم نافعہ کی توضیح و تبین اور اخلاق فاضلہ کی ترغیب پر مشتمل ہوتی ہے۔