زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ۗ ذَٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَاللَّهُ عِندَهُ حُسْنُ الْمَآبِ
مرغوب چیزوں کی محبت لوگوں کے لئے مزین کردی گئی ہے، جیسے عورتیں اور بیٹے اور سونے چاندی کے جمع کئے ہوئے خزانے اور نشان دار گھوڑے اور چوپائے اور کھیتی (١) یہ دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور لوٹنے کا اچھا ٹھکانا تو اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے لوگوں کے لئے دنیوی مرغوب چیزوں کی محبت مزین کردی ہے۔ ان میں سے مذکورہ بالا اشیاء کو خاص طور پر ذکر کیا ہے کہ دنیا کی مرغوب چیزوں میں سے یہ سب سے بڑھ کر ہیں۔ باقی سب ان کے تابع ہیں۔ جیسے ارشاد ہے ﴿إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ﴾(الکھف :18؍ 7)” ہم نے زمین پر جو کچھ ہے اسے زمین کی زینت بنایا ہے“ چونکہ یہ چیزیں مزین کردی گئیں ہیں اور ان میں دلوں کو مائل کرنے کا وصف ہے۔ اس لئے لوگوں کے دل ان کی طرف مائل ہوگئے اور عملی طور پر لوگوں کی دو قسمیں ہوگئیں۔ ایک قسم کے لوگ وہ ہیں جنہوں نے انہی مادی اشیاء کو اپنا مقصود بنا لیا، ان کی سوچیں، ان کے خیالات، ان کے ظاہری اور باطنی اعمال اسی کے لئے خاص ہو کر رہ گئے۔ اسی دنیوی مال و متاع میں مشغول ہو کر وہ اپنی تخلیق کے مقصد کو بھول گئے۔ دنیا سے ان کا وہ تعلق رہا جو چرنے والے مویشیوں کا ہوتا ہے۔ وہ اس کی لذتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہ پروا نہیں کرتے کہ انہوں نے یہ کیسے حاصل کی اور کہاں خرچ کی۔ دنیا ان کے لئے مشقت و عذاب کے مقام (جہنم) کی طرف لے جانے والے سفر کا سامان بن جاتی ہے۔ دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جنہوں نے اس کا اصل مقصود سمجھ لیا کہ اسے تو اللہ نے بندوں کے لئے آزمائش کا ذریعہ بنایا ہے تاکہ یہ ظاہر ہوجائے کہ کون اپنی خواہش نفس اور دنیوی لذت پر اللہ کی اطاعت اور رضا کو ترجیح دیتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے دنیا کو آخرت کے حصول کا ذریعہ بنا لیا۔ وہ اس سے فائدہ تو اٹھاتے ہیں، لیکن اس طرح کہ وہ اللہ کی رضا کے حصول میں مددگار ثابت ہو۔ ان کے بدن تو اس کے ساتھ ہوتے ہیں، لیکن دل اس سے دور ہوتے ہیں، انہیں معلوم ہے کہ اس کی حقیقت وہی ہے جو اللہ نے ان الفاظ میں بیان فرمائی﴿ ذَٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾” یہ تو دنیا کی زندگی کا مال و متاع ہے“ انہوں نے اسے آخرت تک پہنچنے کا ذریعہ سمجھا۔