وَالَّذِي أَطْمَعُ أَن يَغْفِرَ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ
اور جس سے امید بندھی ہوئی ہے کہ وہ روز جزا میں میرے گناہوں کو بخش دے گا (١)
پھر ان میں سے بعض ضروریات کا خاص طور پر ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ﴿وَالَّذِي هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِ وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ وَالَّذِي يُمِيتُنِي ثُمَّ يُحْيِينِ وَالَّذِي أَطْمَعُ أَن يَغْفِرَ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ ﴾ ” اور وہی مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے اور جب میں بیمار پڑجاتا ہوں تو مجھے شفا بخشتا ہے اور وہی ہے جو مجھے مارے گا اور پھر زندہ کرے گا اور وہی ہے جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ روز قیامت میرے گناہ بخش دے گا۔“ یعنی ان تمام افعال کو اکیلاوہی سرانجام دیتا ہے اس لئے واجب ہے کہ صرف اسی کی عبادت اور اطاعت کی جائے اور ان بتوں کی عبادت چھوڑدی جائے جو تخلیق پر قادر ہیں نہ ہدایت پر، جو کسی کو بیمار کرسکتے ہیں نہ شفا دے سکتے ہیں، جو کھلا سکتے ہیں نہ پلاسکتے ہیں، جو مار سکتے ہیں نہ زندہ کرسکتے ہیں اور نہ وہ اپنے عبادت گزاروں کی تکلیف کو دور کرکے ان کو کوئی فائدہ پہنچاسکتے ہیں اور نہ وہ گناہوں کو بخش سکتے ہیں۔ یہ ایسی قطعی دلیل اور روشن حجت ہے جس کا تم اور تمہارے آباء واجداد و مقابلہ نہیں کرسکتے۔ پس یہ چیز گمراہی میں تمہارے اشتراک، اور رشد و ہدایت کے راستے کو چھوڑ دینے پر دلالت کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ وَحَاجَّهُ قَوْمُهُ قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللّٰـهِ وَقَدْ هَدَانِ ۔۔۔ الایات﴾ (الانعام : 6؍80) ” اور ابراہیم سے اس کی قوم نے جھگڑا کیا، ابراہیم نے کہا، کیا تم مجھ سے اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہو، حالانکہ اسی نے مجھے ہدایت دی۔۔۔ “