إِنَّا نَطْمَعُ أَن يَغْفِرَ لَنَا رَبُّنَا خَطَايَانَا أَن كُنَّا أَوَّلَ الْمُؤْمِنِينَ
اس بنا پر کہ ہم سب سے پہلے ایمان والے بنے ہیں (١) ہمیں امید پڑتی ہے کہ ہمارا رب ہماری سب خطائیں معاف فرما دے گا۔
﴿ أَن كُنَّا أَوَّلَ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ ” اس لئے کہ ہم اول ایمان لانے والوں میں ہیں۔“ یعنی موسیٰ علیہ السلام پر ان لشکروں سے پہلے ایمان لائے ہیں پس اللہ تعالیٰ نے ان کو ثابت قدمی اور صبر عطا کیا۔ اس بات کا احتمال ہے کہ فرعون نے اپنی دھمکی پر عمل کیا ہو کیونکہ اس وقت وہ سلطنت اور اقتدار کا مالک تھا اور یہ بھی احتمال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی دھمکی پر عمل کرنے نہ دیا ہو۔ اس کے باوجود کہ موسیٰ علیہ السلام فرعون اور اس کی قوم کے پاس واضح نشانیاں لے کر آئے، وہ اپنے کفر پر جمے رہے۔ جب بھی ان کے پاس کوئی نشانی آتی اور ان پر پوری طرح اثر انداز ہوتی، تب وہ موسیٰ علیہ السلام سے وعدہ کرتے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے ان سے اس عذاب کو دور کردیا تو وہ ان پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو ان کے ساتھ بھیج دیں گے۔ پس اللہ تعالیٰ ان سے عذاب کو ہٹا دیتا مگر وہ اپنے عہد سے پھر جاتے۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کے یمان سے مایوس ہوگئے اور ان پر عذاب الٰہی واجب ہوگیا اور وہ وقت آن پہنچا کہ اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کو ان کی قید و غلامی سے آزادی عطا فرمائے اور ان کو زمین (ملک) پر اقتدار عطا فرمائے تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی کی۔