وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا
اور یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا (١)
﴿ وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا ﴾ ” اور وہ جو کہتے ہیں کہ ہمیں عطا کر ہماری بیویوں کی طرف سے‘‘ یعنی ہمارے ہم عصروں، ہمارے ساتھیوں اور ہماری بیویوں کی طرف سے ﴿ وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ ﴾ ” اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک۔“ یعنی ان کے ذریعے سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ جب ہم ان اللہ کے نیک بندوں کے احوال و اوصاف کا استقراء کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ بلند ہمت اور عالی مرتبہ لوگ ہیں، اس لئے ان کی آنکھیں تب ہی ٹھنڈئی ہوں گی جب وہ انہیں اپنے رب کے حضور مطیع، اس کے متعلق جاننے والے اور نیک اعمال کرتے ہوئے دیکھیں گے۔ گویا کہ ان کی یہ دعا جو ان کی بیویوں اور ان کی اپنی اولاد کی اصلاح کے لئے ہے، در حقیقت وہ ان کے اپنے ہی لیے ہے۔ کیونکہ اس دعا کا فائدہ خود انہی کی طرف لوٹتا ہے، اس لئے انہوں نے اس کو اپنے لیے ہبہ قرار دیتے ہوئے یوں کہا : ﴿ هَبْ لَنَا ﴾ ” ہمیں عطا فرما۔“ بلکہ ان کی دعا کا فائدہ عام مسلمانوں کی طرف لوٹتا ہے کیونکہ مذکورہ لوگوں کی اصلاح سے بہت سے لوگوں کی اصلاح ہوگی جو ان سے متعلق ہیں اور جو ان سے مستفید ہوتے ہیں۔ ﴿ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا ﴾ ’’اور ہمیں پرہیز گاروں کا امام بنا۔“ یعنی، اے ہمارے رب ! ہمیں بلنددرجہ یعنی صدیقین اور اللہ کے صالح بندوں کے درجے پہ پہنچا دے اور وہ ہے امامت دینی کا درجہ، نیز یہ کہ وہ اپنے اقوال و افعال میں اہل تقویٰ کے لئے نمونہ بن جائیں لوگ ان کے افعال کی پیروی کریں اور ان کے اقوال پر مطمئن ہوں اور اہل خیر ان کے پیچھے چلیں اور ان سے راہنمائی حاصل کریں۔ یہ حقیقت اچھی طرح معلوم ہے کہ کسی چیز تک پہنچے کی دعا ایسی چیز کی دعا ہے جس کے بغیر اس کی تکمیل نہیں ہوتی۔ یہ درجہ۔۔۔ امامت دین کا درجہ۔۔۔ صبر ویقین کے بغیر اس درجہ کی تکمیل نہیں ہوتی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ ﴾ (السجدۃ: 32؍24) ” جب انہوں نے صبر کیا اور ہماری آیات پر یقین رکھتے رہے، تو ہم نے ان کے اندر راہنما پیدا کردئیے جو ہمارے حکم سے راہنمائی کرتے تھے۔ “