إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کریں اور ایمان لائیں اور نیک کام کریں، (١) ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے (٢) اللہ بخشنے والا مہربانی کرنے والا ہے۔
﴿ إِلَّا مَن تَابَ ﴾ ” مگر جس نے توبہ کی۔“ یعنی جس نے ان گناہوں اور دیگر گناہوں سے توبہ کی، اس نے فی الفور ان گناہوں کو ترک کردیا، ان گناہوں پر نادم ہوا اور پختہ عزم کرلیا کہ اب وہ دوبارہ گناہ نہیں کرے گا ﴿ وَآمَنَ ﴾ ” اور ایمان لایا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ پر صحیح طور پر ایمان لایا جو گناہوں کو ترک کرنے اور نیکیوں کے اکتساب کا تقاضا کرتا ہے ﴿ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا ﴾ ” اور اچھے کام کیے۔“ یعنی وہ ایسے نیک کام کرتا ہے جن کا شارع نے حکم دیا ہے اور ان سے اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہے۔ ﴿ فَأُولَـٰئِكَ يُبَدِّلُ اللّٰـهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ﴾ ” تو ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا۔“ یعنی ان کے وہ افعال اور اقوال جو برائی کی راہ میں سرانجام پانے کے لئے تیار تھے، نیکیوں میں بدل جاتے ہیں، چنانچہ ان کا شرک ایمان میں بدل جاتا ہے، ان کی نافرمانی اطاعت میں، اور وہ برائیاں جن کا انہوں نے ارتکاب کیا تھا، بدل جاتی ہیں۔ پھر ان کا وصف یہ بن جاتا ہے کہ جو بھی گناہ ان سے صادر ہوتا ہے تو وہ اس کے بعد توبہ کرتے اور انابت و اطاعت کا راستہ اختیار کرتے ہیں، جس سے وہ گناہ بھی نیکیوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں، جیسا کہ آیت کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ایک حدیث وارد ہوئی ہے جو اس شخص کے بارے میں ہے جس کے بعض گناہوں کا اللہ تعالیٰ محاسبہ کرے گا اور ان گناہوں کو اس کے سامنے شمار کرے گا پھر ہر برائی کو نیکی میں بدل دے گا۔ وہ شخص اللہ تعالیٰ سے عرض کرے گا ” اے میرے رب ! میری تو بہت سی برائیاں تھیں جو مجھے یہاں دکھائی نہیں دیتیں۔“[صحیح مسلم ،الایمان،باب ادنیٰ اھل الجنة منزلة فیھا،ح:19] واللہ اعلم۔ ﴿ وَكَانَ اللّٰـهُ غَفُورًا ﴾ ” اور اللہ تو بخشنے والا ہے۔“ جو توبہ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ تمام بڑے برے گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ ﴿ رَّحِيمًا ﴾ وہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے، اس نے ان کو ان کے گناہ کرنے کے بعد توبہ کی طرف بلایا ہے، پھر انہیں توبہ کی توفیق عطا کی اور ان کی توبہ کو قبول فرمایا۔