وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَجَعَلْنَا مَعَهُ أَخَاهُ هَارُونَ وَزِيرًا
اور بلاشبہ ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور ان کے ہمراہ ان کے بھائی ہارون کو ان کا وزیر بنا دیا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہاں ان واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے جن کو دیگر آیات میں نہایت شرح و بسط کے ساتھ بیان فرمایا ہے، تاکہ مخاطبین کو انبیاء و رسل کی تکذیب پر جمے رہنے سے ڈرائے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان پر بھی وہی عذاب نازل ہوجائے جو ان سے پہلی قوموں پر نازل ہوا تھا، جو ان کے قریب ہی آباد تھیں وہ ان کے واقعات کو خوب جانتے ہیں اور ان کے واقعات بہت مشہور ہیں۔ بعض قوموں کے آثار کا وہ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں مثلاً حجر کے علاقے میں صالح علیہ السلام کی قوم اور وہ بستی جس پر کھنگر کے پتھروں کی بدترین بارش برسائی گئی تھی۔ ان کا اپنے سفروں کے دوران میں دن رات ان بستیوں پر گزر ہوتا ہے۔ وہ قومیں ان سے کوئی زیادہ بری نہیں تھیں اور نہ ان کے رسول ان لوگوں کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہتر تھے۔ ﴿ أَكُفَّارُكُمْ خَيْرٌ مِّنْ أُولَـٰئِكُمْ أَمْ لَكُم بَرَاءَةٌ فِي الزُّبُرِ ﴾ (القمر : 54؍43) ” کیا تمہارے کفر ان لوگوں سے بہتر ہیں یا تمہارے لئے پہلی کتابوں میں براءت نامہ تحریر کردیا گیا ہے۔ “ جس چیز نے ان کو ایمان لانے سے روک رکھا ہے، حالانکہ وہ نشانیوں کا مشاہدہ کرچکے ہیں، وہ یہ ہے کہ وہ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کی امید نہیں رکھتے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کی امید رکھتے ہیں نہ اس کی سزا سے ڈرتے ہیں۔ اسی لئے وہ اپنے عناد پر جمے ہوئے ہیں ورنہ ان کے پاس ایسی ایسی نشانیاں آئی ہیں جنہوں نے کوئی شک و شبہ اور کوئی اشکال وریب باقی نہیں رہنے دیا۔