وَيَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَاءُ بِالْغَمَامِ وَنُزِّلَ الْمَلَائِكَةُ تَنزِيلًا
اور جس دن آسمان بادل سمیت پھٹ جائیگا (١) اور فرشتے لگا تار اتارے جائیں گے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت کے دن کی عظمت، اور اس دن پیش آنے والی سختی اور کرب اور دلوں کو ہلا دینے والے مناظر کو بیا کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿ وَيَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَاءُ بِالْغَمَامِ ﴾ ” اور جس دن آسمان پھٹ جائے گا ساتھ بادل کے۔“ یہ وہ بادل ہوگا جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ آسمانوں سے نزول فرمائے گا۔ پس آسمان پھٹ جائیں گے اور تمام آسمانوں کے فرشتے نیچے اتر آئیں گے اور صف در صف کھڑے ہوجائیں گے یا تو تمام ایک ہی صف بنا کر تمام خلائق کو گھیر لیں گے یا اس کی صورت یہ ہوگی کہ ایک آسمان کے فرشتے صف بنائیں گے اس کے ساتھ دوسرے آسمان کے فرشتے صف بنائیں گے اور اسی طرح ساتوں آسمانوں کے فرشتے صف در صف موجود ہوں گے مقصد یہ ہے کہ فرشتے نہایت کثرت اور قوت کے ساتھ نازل ہوں گے۔ ان میں سے کوئی فرشتہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کلام نہیں کرسکے گا۔(اس روز جب یہ حال ہوگا) تو اس کمزور آدمی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جس نے بڑے بڑے گناہوں کا ارتکاب کیا، اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے کام کئے اور توبہ کئے بغیر گناہوں کا بوجھ اٹھائے اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہوگا۔ اللہ تعالیٰ جو بادشاہ اور خالقِ کائنات ہے، ان کے درمیان ایسا فیصلہ کرے گا جس میں ذرہ بھر ظلم و جور نہ ہوگا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَكَانَ يَوْمًا عَلَى الْكَافِرِينَ عَسِيرًا ﴾ یہ دن اپنی سختی اور صعوبت کی وجہ سے کفار کے لئے بہت کٹھن ہوگا اور ان کے تمام امور ان کے لئے بہت مشکل ہوجائیں گے۔ اس کے برعکس مومن کا معاملہ آسان اور اس کا بوجھ بہت ہلکا ہوگا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ يَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِينَ إِلَى الرَّحْمَـٰنِ وَفْدًا وَنَسُوقُ الْمُجْرِمِينَ إِلَىٰ جَهَنَّمَ وِرْدًا ﴾ (مریم :19؍85۔ 86) ” جس روز ہم اہل تقویٰ کو اکٹھا کرکے رحمان کے حضور مہمانوں کے طور پیش کریں گے اور مجرموں کو جہنم کی طرف پیاسے ہانک کرلے جائیں گے۔ “