وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْنَا الْمَلَائِكَةُ أَوْ نَرَىٰ رَبَّنَا ۗ لَقَدِ اسْتَكْبَرُوا فِي أَنفُسِهِمْ وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيرًا
اور جنہیں ہماری ملاقات کی توقع نہیں انہوں نے کہا کہ ہم پر فرشتے کیوں نہیں اتارے جاتے؟ (١) یا ہم اپنی آنکھوں سے اپنے رب کو دیکھ لیتے (٢) ان لوگوں نے اپنے آپ کو ہی بہت بڑا سمجھ رکھا ہے اور سخت سرکشی کرلی ہے۔
وہ لوگ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کی، جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے وعدہ و وعید کو جھٹلایا، جن کے دل میں وعید کا خوف ہے نہ خالق سے ملاقات کی امید۔۔۔ انہوں نے کہا : ﴿ لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْنَا الْمَلَائِكَةُ أَوْ نَرَىٰ رَبَّنَا ﴾ یعنی فرشتے کیوں نہ اترے جو تیری رسالت کی گواہی دیتے اور تیری تائید کرتے یا مستقل رسول نازل ہوتے یا ہم اپنے رب کو دیکھتے وہ ہمارے ساتھ کلام کرتا اور خود کہتا کہ یہ میرا رسول ہے اس کی اتباع کرو؟ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ یہ معارضہ کسی اعتراض کی بناء پر نہیں بلکہ اس کا سبب صرف تکبر، تغلب اور سرکشی ہے ﴿ لَقَدِ اسْتَكْبَرُوا فِي أَنفُسِهِمْ ﴾ ” انہوں نے اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھ رکھا ہے۔“ کیونکہ انہوں نے اس قسم کے اعتراض کئے اور اتنی جسارت کا مظاہرہ کیا۔ اے محتاج اور بے بس لوگو ! تم ہو کون جو اللہ تعالیٰ کے دیدار کا مطالبہ کرتے ہو اور سمجھتے ہو کہ رسالت کی صحت کا ثبوت اللہ تعالیٰ کے دیدار پر موقوف ہے۔ اس سے بڑا تکبر اور کیا ہوسکتا ہے؟ ﴿ وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيرًا ﴾ ” اور انہوں نے بڑی سرکشی کی۔“ یعنی انہوں نے حق کے خلاف قساوت اور صلابت کا رویہ اختیار کیا۔ پس ان کے دل پتھر اور فولاد سے زیادہ سخت تھے وہ حق کے لئے نرم پڑتے تھے نہ خیر خواہی کرنے والوں کی آواز پر کان دھرتے تھے، اس لئے ان کو کسی وعظ و نصیحت نے کوئی فائدہ نہ دیا اور جب ان کے پاس ان کو ان کے انجام سے ڈرانے والا آیا تو انہوں نے اس کی پیروی نہ کی بلکہ انہوں نے مخلوق میں سب سے زیادہ سچی اور خیر خواہ ہستی کا اور اللہ تعالیٰ کی واضح آیات کا اعراض و تکذیب کے ساتھ استقبال کیا، اس سے بڑھ کر اور کونسی سرکشی ہوسکتی ہے؟ بنا بریں ان کے اعمال باطل ہو کر اکارت گئے اور وہ سخت خسارے میں مبتلا ہوگئے۔