فَقَدْ كَذَّبُوكُم بِمَا تَقُولُونَ فَمَا تَسْتَطِيعُونَ صَرْفًا وَلَا نَصْرًا ۚ وَمَن يَظْلِم مِّنكُمْ نُذِقْهُ عَذَابًا كَبِيرًا
تو انہوں نے تمہیں تمہاری تمام باتوں میں جھٹلایا، اب نہ تو تم عذابوں کے پھیرنے کی طاقت ہے، نہ مدد کرنے کی (١) تم میں سے جس نے ظلم کیا ہے ہم اسے بڑا عذاب چکھائیں گے۔
پس جب ان مشرکین کے معبود ان سے بیزاری کا اظہار کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی عبادت کرنے والوں کو زجرو توبیخ کرتے ہوئے فرمائے گا: ﴿ فَقَدْ كَذَّبُوكُم بِمَا تَقُولُونَ ﴾ ” انہوں نے تو تمہیں تمہاری باتوں میں جھٹلا دیا۔“ یعنی وہ اس بات کا انکار کریں گے کہ انہوں نے تمہیں اپنی عبادت کا حکم دیا تھا یا تمہارے اس شرک پر راضی تھے یا یہ کہ وہ تمہارے رب کے پاس تمہاری سفارش کریں گے۔ وہ تمہارے اس زعم باطل کی تکذیب کریں گے اور وہ تمہارے سب سے بڑے دشمن بن جائیں گے۔ پس تم پر عذاب واجب ہوجائے گا۔ ﴿ فَمَا تَسْتَطِيعُونَ صَرْفًا﴾ ” پس نہیں طاقت رکھو گے تم اس کو پھیرنے کی۔“ یعنی تم بالفعل اپنے سے اس عذاب کو ہٹا سکو گے نہ فدیہ وغیرہ کے ذریعے سے اس کو دور کرسکو گے ﴿ وَلَا نَصْرًا﴾ ” اور نہ مدد کرنے کی۔“ یعنی تم اپنے عجز اور کسی حامی و ناصر کے نہ ہونے کی وجہ سے، اپنی مدد نہ کرسکو گے۔ یہ گمراہ اور جاہل مقلدین کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے اور یہ، جیسا کہ آپ نے دیکھا ان کے حق میں انتہائی برا فیصلہ اور ان کا بدترین ٹھکانا ہے۔ رہا ان میں سے حق کے ساتھ عناد رکھنے والا شخص، جس نے حق کو پہچان کر اس سے منہ موڑ لیا، تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَمَن يَظْلِم مِّنكُمْ ﴾ یعنی تم میں سے جو کوئی ظلم اور عناد کی بنا پر حق کو چھوڑ دیتا ہے تو ﴿ نُذِقْهُ عَذَابًا كَبِيرًا ﴾ ہم اس کو اتنے بڑے عذاب کا مزا چکھائیں گے جس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل تکذیب کے اعتراض ﴿ مَالِ هَـٰذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ ﴾ )الفرقان:25؍7)یہ یسا رسول ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔“ کا جواب دیتے ہوئے فرمایا :