لَّا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا ۚ قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا ۚ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
تم اللہ تعالیٰ کے نبی کے بلانے کو ایسا بلاوا نہ کرلو جیسا کہ آپس میں ایک دوسرے سے ہوتا ہے تم میں سے انھیں اللہ خوب جانتا ہے جو نظر بچا کر چپکے سے سرک جاتے ہیں (١) سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انھیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے یا انھیں دردناک عذاب نہ پہنچے۔
﴿ لَّا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا ﴾ ،، نہ کرو تم رسول کے بلا نے کو آپس میں جیسے ایک تمہارے دوسرے کو بلاتا ہے۔‘‘ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تمہیں بلانا اور تمہارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلانا ایسے نہ ہوجیسے تم ایک دوسرے کو بلاتے ہو۔ پس جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہیں بلائیں تو ان کی آواز پر لبیک کہنا تم پر فرض ہے۔ یہاں تک کہ اگر تم نماز کی حالت میں ہو تب بھی تم پر آپ کے بلانے پر جواب دینا فرض ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا امت میں کوئی ایسی ہستی نہیں جس کے قول کو قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا واجب ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معصوم ہیں اور ہم پر آپ کی اتباع واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلّٰـهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ﴾ (الانفال: 8؍24) ’’اے ایمان والے لوگو ! اللہ اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہو، جب رسول تمہیں اس چیز کی طرف بلائے جو تمہیں زندگی عطا کرتی ہے۔‘‘ اسی طرح تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس طرح نہ بلاؤ جس طرح تم ایک دوسرے کو بلاتے ہو، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہوتے وقت (یا محمد)’’اے محمد !‘‘ (یا محمد بن عبداللہ)’’اے محمد بن عبداللہ !‘‘ نہ کہو جیسا کہ تم ایک دوسرے سے مخاطب ہوتے ہو۔۔۔ بلکہ آپ کو فضل و شرف حاصل ہے اور آپ دوسروں سے ممتاز ہیں اس لئے آپ سے مخاطب ہوتے وقت یہ کہا جائے’’اے اللہ کے رسول ! ‘‘ ’’اے اللہ کے نبی !‘‘ ﴿ قَدْ يَعْلَمُ اللّٰـهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا ﴾ ’’اللہ جانتا ہے ان لوگوں کو جو کھسک جاتے ہیں تم میں سے نظر بچا کر‘‘اللہ تبارک و تعالیٰ نے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والوں کی مدح بیان کی ہے کہ جہ وہ کسی جامع معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہوتے ہیں تو آپ سے اجازت لئے بغیر واپس نہیں جاتے۔ بعد ازاں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو وعید سنائی جنہوں نے ایسا نہیں کیا اور جازت لئے بغیر چلے گئے۔ اگرچہ ان کا چپکے سے چلے جانا تم پر مخفی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے یہی مراد ہے۔ ﴿ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا ﴾ یعنی کھسکتے اور آپ کے پاس سے جاتے وقت، لوگوں کی نظر سے چھپنے کے لئے کسی چیز کی آڑ لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو جانتا ہے وہ ان کو ان کے ان کرتوتوں کی پوری پوری جزا دے گا، اس لئے فرمایا : ﴿ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ ﴾ ’’پس چاہیے کہ ڈریں وہ لوگ جو مخالفت کرتے ہیں آپ کے حکم کی۔‘‘ یعنی جو لوگ اپنے کسی ضروری کام کے لئے اللہ اور اس کے رسول کے کام کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ تب اس شخص کا کیا حال ہوگا جو اپنے کسی ضروری کام اور مشعولیت کے بغیر اللہ تعالیٰ کے حکم کو ترک کرتا ہے۔ ﴿ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ ﴾ ’’یہ کہ پہنچے ان کو کوئی فتنہ‘‘ یعنی شرک اور شر ﴿ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾ ’’یا ان کو کوئی درد ناک عذاب آلے۔‘‘