أَفِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ أَمِ ارْتَابُوا أَمْ يَخَافُونَ أَن يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَرَسُولُهُ ۚ بَلْ أُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
کیا ان کے دلوں میں بیماری ہے؟ یا یہ شک و شبہ میں پڑے ہوئے ہیں؟ یا انھیں اس بات کا ڈر ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ان کی حق تلفی نہ کریں؟ بات یہ ہے کہ یہ لوگ خود ہی بڑے ظالم ہیں (١)
ان لوگوں کی احکام شریعت سے رو گردانی پر ملامت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ أَفِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ ﴾ ” کیا ان کے دلوں میں کوئی بیماری ہے ؟“ جس نے ان کے دلوں کو صحت کے دائرہ سے نکال دیا، اس کا احساس جاتا رہا اور وہ بیمار آدمی کی طرح ہوگئے جو ہمیشہ اس چیز سے اعراض کرتا ہے جو اس کے لیے فائدہ مند ہے اور اس چیز کو قبول کرتا ہے جو اس کے لیے ضرر رساں ہے۔ ﴿ أَمِ ارْتَابُوا﴾ یا انہیں کوئی شک ہے یا ان کے دل اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے بارے میں اضطراب کا شکار ہوگئے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ پر تہمت لگاتے ہیں کہ وہ حق کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا۔ ﴿ أَمْ يَخَافُونَ أَن يَحِيفَ اللّٰـهُ عَلَيْهِمْ وَرَسُولُهُ ﴾ ” یا وہ ڈرتے ہیں کہ اللہ اور اس کا رسول ان پر ظلم کرے گا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں ظلم و جور پر مبنی فیصلہ کرے گا حالانکہ یہ تو انہی کا وصف ہے۔ ﴿ بَلْ أُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴾ ” بلکہ ظالم تو وہ خود ہیں۔“ رہا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیصلہ، تو وہ انتہائی عدل و انصاف پر مبنی اور حکمت کے موافق ہے۔ ﴿ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّٰـهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ ﴾ ( المائدہ :5؍50)” یقین رکھنے والے لوگوں کے لیے اللہ سے بڑھ کر کس کا فیصلہ اچھا ہوسکتا ہے ؟ “ ان آیات کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان مجرو قول کا نام نہیں، بلکہ ایمان صرف اسی وقت معتبر ہوتا ہے جب اس کے ساتھ عمل بھی مقرون ہو۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے ایمان کی نفی کی ہے جو اطاعت سے منہ موڑتا ہے اور ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے وجوب کو نہیں مانتا اور اگر وہ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کے سامنے سر افگندہ نہیں ہوتا تو یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ اس کے دل میں بیماری اور اس کے ایمان میں شک و ریب کا شائبہ ہے، نیز احکام شریعت کے بارے میں بدگمانی کرنا اور ان کو عدل و حکمت کے خلاف سمجھنا حرام ہے۔