سورة النور - آیت 45

وَاللَّهُ خَلَقَ كُلَّ دَابَّةٍ مِّن مَّاءٍ ۖ فَمِنْهُم مَّن يَمْشِي عَلَىٰ بَطْنِهِ وَمِنْهُم مَّن يَمْشِي عَلَىٰ رِجْلَيْنِ وَمِنْهُم مَّن يَمْشِي عَلَىٰ أَرْبَعٍ ۚ يَخْلُقُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

تمام کے تمام چلنے پھرنے والے جانداروں کو اللہ تعالیٰ ہی نے پانی سے پیدا کیا ان میں سے بعض تو اپنے پیٹ کے بل چلتے ہیں (١) بعض دو پاؤں پر چلتے ہیں (٢) بعض چارپاؤں پر (٣)، اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے (٤) بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے روئے زمین کے تمام جانداروں کو۔۔۔ جیسا کہ وہ مشاہدہ کرتے ہیں ﴿ مِّن مَّاءٍ ﴾ ”پانی سے“ تخلیق فرمایا، یعنی تمام جان داروں کا مادہ تخلیق پانی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ﴾ (الانبیاء :21؍30)” اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی ہے۔“ پس وہ حیوانات جن کا سلسلہء تناسل جاری ہے، ان کا مادہ تخلیق نطفہ کا پانی ہے جب نر مادہ کو حاملہ کرتا ہے تو اسی آب نطفہ سے تخلیق ہوتی ہے اور وہ حیوانات جو زمین سے پیدا ہوتے ہیں وہ صرف پانی کی رطوبتوں سے پیدا ہوتے ہیں، مثلاً حشرات الارض۔ ان میں نطفہ وغیرہ موجود نہیں ہوتا، وہ ہمیشہ آب نطفہ کے بغیر پیدا ہوتے ہیں۔ پس مادہ تخلیق ایک ہے، مگر اس سے پیدا ہونے والی مخلوق بہت سے پہلوؤں سے ( ایک دوسرے سے)مختلف ہوتی ہے۔ ﴿ فَمِنْهُم مَّن يَمْشِي عَلَىٰ بَطْنِهِ﴾ ” پس ان میں سے کوئی پیٹ کے بل چلتا ہے“ جیسے سانپ وغیرہ ﴿ وَمِنْهُم مَّن يَمْشِي عَلَىٰ رِجْلَيْنِ ﴾ ” اور کوئی دو ٹانگوں پر چلتا ہے“ جیسے آدمی اور بہت سے پرندے ﴿ وَمِنْهُم مَّن يَمْشِي عَلَىٰ أَرْبَعٍ ﴾ ” اور بعض ان میں سے چار ٹانگوں پر چلتے ہیں۔“ جیسے چوپائے اور مویشی وغیرہ۔ اصل ایک کے باوجود ان میں تنوع دلالت کرتا ہے کہ اس کی قدرت سب کو شامل اور اس کی مثیت سب میں نافذ ہے۔ بنابریں فرمایا : ﴿ يَخْلُقُ اللّٰـهُ مَا يَشَاءُ ﴾ ” اللہ جو چاہتا ہے ( اور جیسی چاہتا ہے اپنی مخلوق)پیدا کرتا ہے“ ﴿ إِنَّ اللّٰـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴾ ” بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔“ مثلاً اللہ تعالیٰ زمین پر پانی نازل کرتا ہے، یعنی پانی ایک ہی ہے ماں، یعنی زمین ایک ہے مگر اس زمین سے جنم لینے والی اولاد مختلف اوصاف کی حامل اور متنوع ہے۔ فرمایا : ﴿و وَفِي الْأَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجَاوِرَاتٌ وَجَنَّاتٌ مِّنْ أَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِيلٌ صِنْوَانٌ وَغَيْرُ صِنْوَانٍ يُسْقَىٰ بِمَاءٍ وَاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلَىٰ بَعْضٍ فِي الْأُكُلِ إِنَّ فِي ذٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ﴾ ( الرعد :13؍4)” اور زمین میں الگ الگ خطے ہیں جو ساتھ ساتھ پائے جاتے ہیں، انگور کے باغات ہیں، کھیتیاں ہیں، نخلستان ہیں ان میں سے کچھ ایک ہی جڑ سے دو درخت نکلے ہوئے ہیں، کچھ اکہرے ہیں، جن کو ایک ہی پانی سے سیراب کیا جاتا ہے مگر مزے میں ہم ان کو ایک دوسرے پر فضیلت دے دیتے ہیں۔ بے شک اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ “